ہم سب اب انتہا پسند ہو چکے ہیں


\"raazia\"جب میں چھوٹی سی تھی تو ہمارے سکول میں ایک لڑکی درازقامت اور تمام بچیوں کے مقابلے میں قدرے صحت مند تھی وہ پڑھائی میں تو اتنی اچھی نہیں تھی تاہم اپنی دھونس جمانے کی عادت کی وجہ سے آگے آگے رہتی تھی، چھوٹی بچیوں کو کلاس میں بند کر کے چلے جانا، ان سے ان کا لنچ چھین کے بھاگ جانا، اپنی غلطیوں میں دوسروں کو پھنسا دینا سب اس کے دل پسند مشغلے تھے، سچ پوچھئے تو کوئی بھی لڑکی اسے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی ہاں البتہ اپنی نفرت کا اظہار اس کی غیر موجودگی میں ضرور کرتی تھی۔

عمر کے اس دور میں مجھے انتہا پسندی اور شدت پسندی کے معانی معلوم نہیں تھے لیکن ہم سب اس کو اکھڑ اور ضدی کہتے تھے اب جب میں کبھی اپنے ملک کے حالات دیکھتی ہوں تو مجھے وہ اکھڑ سی ضدی سی لڑکی تہمینہ ضرور یاد آتی ہے۔ وہ بھی دوسری لڑکیوں سے حسد کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچاتی تھی اور ہمارے ملک میں بھی اگر لوگوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تو میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ بے روزگاری نہیں، تعلیم کی کمی بھی نہیں، ہاں البتہ حسد ضرور ہے اور یہی حسد ہم میں عدم برداشت کو جنم دے رہا ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ ہم سب آج حسد کی حدوں کو پار کر چکے ہیں تو یہ غلط نہیں ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کوئی بھی شخص اسلام کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے اور دوسروں پر قتل کے فتوے صادر کرتا ہے، ایک ایسی دنیا جہاں موسیقی اور فنون لطیفہ کے لئے جگہ نہیں اور جہاں بے ضرر لیکن باوقار فنکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ ایک ایسا دیس جہاں ایک جانب خواتین کے لئے قوانین پاس ہوتے ہیں تو دوسری طرف اسی وقت انھیں تیزاب گردی، غیرت پر قتل اور اسی طرح کے دیگر واقعات میں مار دیا جاتا ہے۔ سوچئیے تو یہ عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ صرف اسی لئے کہ ہم کسی کی کسی بھی خوبی کو برداشت نہیں کر سکتے، ہم اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، ہم کسی سے حسد کرتے ہوئے بالکل اس مکھی کی مانند ہو جاتے ہیں جو سارے صاف ستھرے جسم کو چھوڑ کر صرف گندگی پر ہی بیٹھتی ہے، ہمیں دوسروں کی خوبیاں اور اپنی برائیاں کیوں دکھائی نہیں دیتیں اس لئے کہ ہم آئینہ دیکھنا نہیں، دکھانا شروع کر دیا ہے۔

ہم اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے اتنا آگے نکل آئے ہیں کہ دوسروں کے خواب کہیں کھو گئے ہیں، ان کی زندگیوں کے ستاروں کو تو ہم نے مدھم کر دیا ہے، ہم اپنی بہاروں کی تلاش میں نکلے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو اندھیرے اور پت جھڑ کا مسافر بنا دیا ہے۔ کسی کی ذات سے اختلاف اب ہمیں صرف بندوق اٹھانے اور گولی چلانے پر ہی مجبور کر دیتا ہے جبکہ جس دین کے ہم پیروکار ہیں وہ تو اس شخص کو مسلمان ہی قرار نہیں دیتا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔

یہ کیسا الائو ہے جو ہم نے خود ہی روشن کیا ہے اور اس میں جلنے والوں پر نوحہ کناں بھی خود ہی ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینوں میں مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گولیاں مار کر قیمتی زندگیاں ضائع کر دی جاتی ہیں اور ہم ایسے احساس رکھنے والے کہ دو جملے کہہ کر چینل تبدیل کر کے رمضان کے نام پر اوٹ پٹانگ نشریات دیکھنے لگتے ہیں۔

زندگی کتنا بدل گئی، سب کچھ کتنا تبدیل ہو گیا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ تہمینہ اس ملک میں ہوتی تو کتنی خوش ہوتی کہ یہاں تو سبھی اس کی طرح کے حاسد ہیں، سبھی انتہا پسند ہیں ہاں فرق صرف یہ ہے کہ وہ کلاس روم میں بچوں کو بند کرتی تھی، ان کا لنچ چھین لیتی تھی، یہاں یہ ہے کہ بچوں کو ان کے والدین سے ہی محروم کر دیا جاتا ہے کہ لنچ بننے سے پہلے ان کا رزق ہی چھین لیا جائے، کمانے والا سہارا ہی ختم کر دیا جائے، یہاں تو صرف لوگوں کو کمرے میں بند نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی عزتوں سے بھی کھیلا جاتا ہے۔

یہاں تو کسی ایک فرقے کے لوگ بخشے بخشائے اور باقی سب کافر قرار دے دئیے جاتے ہیں، یہاں تو آپ صبح اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ اگلی منزل گھر ہو گا یا شہر خاموشاں؟

تہمینہ تم کبھی امریکا سے آئو تو میں تمھیں ضرور بتائوں گی کہ تمھارا دھونس، رعب اور ڈرانے دھمکانے کا فارمولا بہت کامیاب ہے کیونکہ اب ہم سب تمھاری طرح انتہا پسند ہو چکے ہیں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments