لباس کا اثر، اخلاق و معاشرت پر


کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مولوی صاحب اس وجہ سے شدید تنقید کی زد پر رہے کہ انھوں نے ایک سیمینار میں ”انگریزی لباس“ زیب تن کر کے شرکت کی تھی، اس کی حمایت و مخالفت میں مضامین کے انبار سے فیس بک خاصا بوجھل رہا۔

اس حوالے سے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی ایک پرانی تحریر سے چند سطور ملاحظہ ہوں، شاید نفع بخش، شفا دہندہ اور ’بحث کش‘ ثابت ہوں۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ’زبان اور لباس کا اثر اخلاق و معاشرت پر‘ کے عنوان سے اپنے مضمون کے آغاز ہی میں لکھتے ہیں :

”جس طرح جمادات و نبادات اور جڑی بوٹیوں میں حق تعالی نے خاص خاص آثار ودیعت رکھے ہیں، جن میں سے بعض طبع انسانی کے لیے مفید بعض مضر سمجھے جاتے ہیں اور دوا و علاج اور پرہیز میں ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے، اسی طرح انسانی افعال و اعمال میں بھی ہر عمل کے کچھ خواص ہیں، جو قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے اور بعض مشاہدات و تجربات سے ثابت ہیں۔ زبان اور لباس اسی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں کہ ان میں حق تعالی نے خاص خاص آثار رکھے ہیں اور اکثر احکام اسلامیہ میں ان کا لحاظ رکھا گیا ہے۔“

”صدیوں کے تجربہ اور ہزاروں مشاہدات سے یہ امر درجہ یقین کو پہنچ جاتا ہے، کہ انسان جس قوم کی زبان اور لباس اختیار کرتا ہے، اس کے خیالات اور اخلاق نہایت سرعت سے اس کے قلب و دماغ پر چھا جاتے ہیں۔ اس دقیق ربط کی حقیقت کو آپ سمجھ سکیں یا نہ سمجھیں، مگر نتائج اس کے اس قدر کھلے ہوئے ہیں کہ ان کا انکار نہیں ہو سکتا۔“

”ہمارے اسلاف اس گر سے واقف تھے، انھوں نے جب جزیرۃ العرب سے علَمِ ہدایت لے کر عجم کی طرف قدم بڑھایا، تو ہر جگہ اس کا خیال رکھا اور جس طرح اسلام کی اشاعت و تبلیغ کو تمام عالم انسان پر عام کرنے کی کوشش کی اسی طرح عربی زبان اور عرب کی وضع و لباس کو بھی عام کرنے کی سعی فرمائی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ حیرت انگیز کام یابی حاصل کی کہ عالم میں اس کی نظیر نہیں“ ۔

حضرت مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس سلسلے میں کچھ تاریخی شواہد ﺫکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
”افسوس کہ ہم کیا سے کیا ہو گئے، کہاں سے کہاں جا پہنچے، سلف کی اس نا خلف اولاد نے کس طرح ان کی عزت کے نشانات کو مٹایا اور غیروں کی غلامی کا طوق اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں ﮈال لیا۔ ایک شخص ابتدا میں صرف انگریزی جوتا استعمال کرتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ اس سے ہم انگریز نہیں بن گئے، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں وہ دیکھ لے گا کہ یہ انگریزی جوتا اس کے بدن سے اسلامی پاجامہ اتروا کر ٹخنوں سے نیچا پاجامہ پہننے پر مجبور کر دے گا۔ پھر یہ پاجامہ اس کا اسلامی کرتا اور عباء اتروائے گا“ ۔

آگے مکمل انگریزی لباس تک پہنچنے کے مراحل کا ﺫکر کرنے کے بعد مفتی صاحب فرماتے ہیں :
”اب صاحب بہادر کسی مسند پر نہیں بیٹھ سکتے، دستر خوان پر کھانا تناول نہیں فرما سکتے، نماز کے لیے بار بار وضو نہیں کر سکتے، رکوع و سجدہ نہیں کر سکتے۔ غرض گھر کا پرانا فرنیچر رخصت، پرانی وضع قطع رخصت، رسم و رواج رخصت، طہارت و عبادات رخصت۔ دیکھ لیا کہ ایک انگریزی جوتے کی آفت کہاں تک پہنچی اور کس طرح اس نے تمھارے دین و دنیا کو تباہ کر ﮈالا۔ حقیقت میں گناہوں کا ایک سلسلہ ہے، جب انسان ایک گناہ اختیار کرتا ہے، تو دوسرا خود بخود اس کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نیکی کی فوری جزا یہ ہے، کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق مل جاتی ہے اور گناہ کی فوری سزا یہ ہے کہ اس کے بعد دوسرے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے“ ۔
( کشکول / 83 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).