کون سا مشورہ نہ مان کر مسلم لیگ (ن) معتوب ہوئی؟


سینیٹ انتخابات اور اس کے چئیرمین کے لئے عملیت پسند مصالحت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود انہیں جولائی 2018 کے انتخابات میں مناسب حصہ نہیں مل سکا۔ سندھ میں وہ اقتدار بچانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن اب ایف آئی اے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ صوبے میں کبھی گورنر راج کی باتیں ہوتی ہیں اور کبھی اس سے انکار کیا جاتا ہے۔ کبھی مراد علی شاہ کے استعفی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی یہ اشارے دیے جاتے ہیں کہ سندھ پر بدعنوان ٹولے کی حکومت غیر اخلاقی ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہونے پر پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو پھر صوبوں کے مفادات اور اٹھارویں ترمیم یاد آرہی ہے۔

جمہوریت، سیاسی اقتدار، اداروں کی مداخلت اور بدعنوانی و منی لانڈرنگ کے بیانیہ پر استوار یہ صورت حال سیاست میں ہیرو اور ولنز کا سراغ لگانے کا میڈ ان پاکستان آلہ بن چکا ہے۔ اس کی مدد سے اس وقت عمران خان کی حکومت اپنے سارے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کرکے عوام میں بے توقیر کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اسی بیانیہ کے مستقبل میں سامنے آنے والے ایڈیشن میں کس کس کا نام درج ہوگا۔ یہ کھیل پرانا ہونے کے باوجود نئے اور پرانے کھلاڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسی لئے رونق لگی ہوئی ہے اور چوہدری نثار اس کھیل کے بنیادی اصولوں کی نشاندہی کرتے ہوئے خود کو ’اصول پسند‘ سیاست دان قرار دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔

آصف زرداری مشکل میں تھے تو نواز شریف وزیر اعظم کے طور اتنے لاچار تھے کہ ان سے ملاقات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکے۔ جب یہ وقت نواز شریف پر آیا تو زرداری قومی مفاد کا جال بننے والے مزدوروں میں بھرتی ہونے کو قومی خدمت سمجھ رہے تھے۔ تاہم جب وہ خود اسی پھندے کی گرفت میں ہیں تو بے بسی سے اٹھارویں ترمیم کی دہائی دے رہے ہیں لیکن حکومت اس سنگین الزام کو اتنی اہمیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے کہ اس دعوے کی تردید کا اہتمام کیا جائے کہ موجودہ حکومت ون پارٹی حکومت کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتی اور صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

جال میں پھنسے نواز شریف اور آصف زرداری اب بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں لیکن اس بھنور سے نکلنے کے لئے اپنے اپنے طور پر ہاتھ پاؤں مار کر ہی کامیابی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہتھکنڈے اور عذر کو جمہوریت کا نام دے دیا گیاہے۔ ملک کے سب سیاست دان اسے اقتدار حاصل کرنے کے لئے نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے تقاضے پورے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ ایسی صورت میں جمہوریت کا پودا جو پھل دے گا اس کا فائدہ بھلے آنے والی نسلوں کو ہو لیکن موجودہ قیادت کو اقتدار اور وزارت عظمی عطا نہیں کرتا۔

ایسی صورت میں کیا چوہدری نثار علی خان کے نسخہ کیمیا کو رہنما اصول مان کر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اداروں کی چوکھٹ پر سر جھکا کر اقتدار حاصل کیا جائے اور مزے کیے جائیں۔ جمہور کے حق حکمرانی کی بات جلسوں میں نعرے لگانے اور عام آدمی کو خوش کرنے تک ہی کافی سمجھی جائے۔ آگے بڑھتے ہوئے اس پرچہ ترکیب استعمال پر عمل کیا جائے جس پر سنہرے حروف میں کامیابی کا نقشہ ثبت ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں چار فوجی ’انقلابات‘ ، آدھا ملک گنوانے کی کہانی اور کرپشن کے خاتمہ کا قصہ انہی اجزائے ترکیبی سے بنا گیا ہے۔

بار بار وزرائے اعظم کو بدعنوانی کے الزامات میں معزول کیا گیا، حکومتوں کو توڑا گیا۔ ایک کے بعد دوسرا جرنیل بلا تخصیص احتساب کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھا اور خود الزامات کا پشتارہ اٹھائے ماضی کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔ نہ احتساب ہؤا اور نہ انصاف مل سکا۔ اب چوہدری نثار علی خان وہی ترکیب سامنے لائے ہیں جس پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی ملک کے سیاست دان اور سیاسی نظام موجودہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

جمہوریت ایک سادہ اصول کا نام ہے۔ عوام ووٹ دیں اور منتخب ہونے والے عوام کے عطا کردہ اس اختیار کو عوام کے مسائل اور قومی امور طے کرنے کے لئے استعمال کریں۔ باقی ادارے، فوج ہو یا عدالتیں پارلیمنٹ کے طے کردہ دائرہ عمل کے اندر اپنے فرائض ادا کریں۔ اگر اس بنیادی اور سادہ اصول کو چوہدری نثار علی خان کے کامیابی کے منتر میں تبدیل کیا جائے گا تو اس کا انجام جیل کی کوٹھری یا سیاسی ہزیمت ہی ہو گی۔

جمہوریت میں ان طاقتوں کو بالادستی نہیں دی جاتی جن سے قوت مانگ کر ملک کے سیاست دان اقتدار کا راستہ کھوجتے ہیں۔ اگر یہ طریقہ مسترد نہیں کیا جائے گا تو ملک میں خوشحال بستیوں کی بجائے جیل کی کوٹھریاں ہی تعمیر ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali