سیلاب سے حفاظت کے نامکمل انتظامات


\"mujahid

چترال میں موسلا دھار بارشوں کے سبب آنے والی طغیانی سے تیس سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد لاپتہ ہیں۔ سیلاب کے باعث کئی گھر ، ایک مسجد اور دوسری عمارتیں بہہ گئی ہیں۔ سب سے ذیادہ نقصان چترال ضلع کے آرسون نامی گاؤں میں ہؤا ہے۔ فوج کو امدادی کاموں کے لئے طلب کر لیا گیا ہے۔ ملک میں مون سون سیزن شروع ہونے کے ساتھ ہی اس سنگین نقصان کے سبب یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اس بار پھر قبل از وقت وارننگ کا نظام متعارف کروانے، ممکنہ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور موسمی حالات کا سامنا کرنے کے لئے مناسب امدادی ڈھانچہ استوار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس دوران کراچی اور سندھ میں شدید بارشوں کا آغاز ہوتے ہی دس سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ املاک کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ سیلاب ، طغیانی اور شدید بارشوں کی وجہ سے سب سے پہلے نشیبی علاقوں میں آباد غریب اور بے وسیلہ لوگ نشانہ بنتے ہیں۔ اچانک علاقوں میں پانی آجانے کی وجہ سے وہ اپنا اسباب محفوظ جگہ پر منتقل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ اس وجہ سے سیلاب کا سیزن ختم ہوجانے کے بعد بھی ان خاندانوں کو امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی کے تجربات میں یہ دیکھا جا چکا ہے کہ سرکاری ادارے متاثرین کی امداد کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی بجائے بیرونی اداروں اور ملکی فلاحی تنظیموں کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کو بھی خرد برد کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ امدادی کام کے لئے ہمیشہ فوج کو آگے آنا پڑتا ہے یا نجی فلاحی تنظیمیں اس موقع پر لوگوں کے چندوں سے جمع ہونے والی رقم سے متاثرین کی امداد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی مشینری اس تمام عرصہ میں منظر نامہ سے غائب رہتی ہے لیکن وزیر اور مشیر اسلام آباد یا دیگر شہروں میں اپنے محفوظ مقامات سے ہمدردی کے پیغامات ضرور جاری کرتے رہتے ہیں۔ یا صاحبان اختیار ہیلی کاپٹروں کے ذریعے تباہی کا ہوائی معائنہ کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیتے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب اور طغیانی کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے باشندوں کو ہر سال اس آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2010 خیبر پختون خوا اور پنجاب کے وسیع علاقوں میں تباہ کن سیلاب آیا تھا ۔ اس سال دو ہزار لوگ سیلاب کے باعث جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ دو کروڑ سے زائد بے گھر ہوئے تھے۔ اس کے بعد آنے والے سالوں میں بھی ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ جاری رہا۔ 2011 میں 361 افراد ہلاک اور 53 لاکھ بے گھر ہوئے۔ اس کے بعد کے سالوں میں بھی سیلاب کے باعث تباہی ہوتی رہی تاہم سیلاب کی شدت میں کمی کے باعث ذیادہ لوگ جاں بحق نہیں ہوئے۔ لیکن حکومت بارہا وعدے کرنے کے باوجود بارشوں اور سیلاب کی وارننگ کا مؤثر نظام استوار کرنے اور متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو سیلاب کی آمد سے پہلے منتقل کرنے کا کوئی انتظام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ماہرین موسمیات نے سال رواں کے دوران شدید بارشوں کی خبر دی ہے۔ اگر یہ پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے تو ایک بار پھر ملک کے بیشتر علاقوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر نا پڑے گا۔ حکومت کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ابھی سے ایسے علاقوں میں لوگوں کے لئے متبادل محفوظ انتظام کرنا چاہئے، جہاں سیلاب سے تباہی کا اندیشہ موجود ہے۔ تاہم یہ کام صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب حکومت کے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متحرک ہوں اور پانی سر سے گزرنے کا انتظار نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments