یہ صرف سعودی جبر سے رہائی مانگنے والی ایک لڑکی رہف کا معاملہ نہیں!


گو کہ مسلمان اکثریت کے بیشتر ممالک میں خواتین کے بارے میں یہی منفی اور افسوسناک صورت حال موجود ہے لیکن متعدد عرب ممالک اور ایران وغیرہ میں مذہب اور اس کی روایت کے نام پر ایسا سماجی تصور ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور شرف انسانیت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ غیر مسلموں کے علاوہ دینی احکامات اور روایات کے باقاعدہ علم سے نابلد مسلمانوں کے لئے بھی یہ بات ناقابل فہم ہوتی ہے کہ ایک طرف پیغمبر اسلام کو رحمت اللعالمین بتاتے ہوئے انہیں بطور خاص کمزوروں اور خواتین کے حقوق کا محافظ بتایا جاتا ہے لیکن خود مسلمان ممالک کے علما اور حکام، اسلام اور رسول پاک سے وابستہ حسن سلوک اور تحمل و بردباری کی اس درخشندہ روایت کو اپنے قول و فعل کا حصہ بنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔

دعوؤں سے برعکس عملی رویّے ایک طرف غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ناپسندیدگی کو فروغ دیتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی نوجوان نسل بھی اس صورت حال کو تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہے۔ اس سماجی تصادم کے مظاہر صرف مغرب میں آباد مسلمان خاندانوں میں ہی دیکھنے میں نہیں آتے بلکہ مسلمان اکثریتی معاشروں میں بھی اس قسم کی جائز اور قابل فہم ’بغاوت‘ کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ رہف محمد القنون کا معاملہ بھی اسی مزاج کا شاخسانہ ہے جو بتدریج قوت پکڑ رہا ہے۔ اب اس سوچ کو دبانا اور محض اپنی فرسودہ خیالی پر اصرار کو سماجی افتخار اور وقار کا سبب سمجھنا، دراصل مسلمانوں کو عام طور سے اور نوجوان نسل کو خاص طور سے ترقی اور سماجی بہبود کے راستے سے گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

ایسے معاملات منظر عام پر آتے ہیں تو اس کی ذمہ داری ’گمراہ اور بے راہرو‘ مغربی معاشروں اور تہذیب پر عائد کرکے لوگوں کو مسلسل جاہلانہ اور انسان دشمن رویہ کو دین کا پیغام سمجھ کر ماننے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ مسلمانوں میں ابھی تک کوئی ایسی طاقت ور سماجی تحریک سامنے نہیں آسکی ہے جو اس نامناسب اور بلاجواز طرز استدلال کو مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کرسکے کہ بنیادی انسانی حقوق اور دینی عقائد میں کوئی تصادم نہیں ہو سکتا۔ اگر علمائے دین یا سماجی لیڈر ایسے کسی تصادم اور تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں تو یہ کج فہمی اور مریضانہ ذہنیت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس مزاج کو مسترد کرنے اور فرد کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے کے لئے شعور پیدا کرنے اور اس پر اصرار کرنے کے لئے جد و جہد کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے صدیوں پرانے سماجی تعصبات اور امتیازی رویوں کے ساتھ ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کی بہت واضح مثال مسلمان ممالک کے معاشرے ہیں۔ ان میں متعدد ممالک کو کثیر مالی وسائل بھی دستیاب ہیں لیکن وہ ترقی کے سفر میں دوسری اقوام سے کوسوں پیچھے ہیں۔

مسلمانوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سوال سے گریز اور تحقیق و جستجو کا راستہ ترک کرنا ہے۔ علم مذہب کا ہو، سماجی رہن سہن یا خاندان کے رسم و رواج سے متعلق ہو، جب تک ان کے بارے میں استفسار کرنے اور نئے راستے کھولنے کی روایت پر اصرار نہیں کیا جائے گا، مسلمانوں کا زوال کی طرف سفر جاری رہے گا۔ تھائی لینڈ میں پھنسی سعودی نژاد رہف نے اپنی زندگی کے لئے جو آواز بلند کی ہے وہ ایک لڑکی کی زندگی یا خوشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ مسلمان معاشروں میں جاری جمود اور انحراف کی کیفیت کو بیان کرنے والی صدا ہے۔ اس تصویر کا یہی پہلو چونکا دینے کے لئے کافی ہونا چاہیے کہ رہف کی زندگی اور حفاظت کے لئے اٹھنے والی آوازیں صرف مغرب سے ہی بلند ہورہی ہیں۔ مسلمان عام طور سے ایسی خبروں کو ’مغرب کی سازش‘ سمجھ کر خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاسبان مشرق اسے اپنی روایت پر حملہ سمجھتے ہوئے ایک کمسن بچی کی دردناک پکار کو سننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں اس خبر کو بھی کوئی اہمیت حاصل نہیں اور نہ اسے نشر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali