عقل بڑی کہ بھینس؟


جنہیں دیکھ کر بارہا یہ احساس ہوتا ہے کہ یوں قتل میں بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا۔ ۔ اپنے چہروں پر کالی سیاہی ملنے کی انہیں کیا ضرورت تھی۔ ماسک اور دستانے پہن کر وہ یونہی اپنی کٹھ پتلیوں کو آگے کر کے اپنا الو سیدھا کیے رکھتے نہ تہمت گناہ لگتی نہ اقوامِ عالم میں اس قدر جگ ہنسائی ہوتی۔ جب غرض گھی نکالنے کی تھی تو پھر انگلیاں سیدھی ہوں یا ٹیڑھی ان سے کیا فرق پڑتا ہے۔

بات شروع ہوئی تھی اس بحث سے کہ بھینس بڑی یا عقل؟ جو لوگ گائے بھینس کو بڑا ماننے پر تلے بیٹھے ہیں انہیں کیسے یہ سمجھایا جائے کہ بڑی بڑی گائے بھینسوں کے ساتھ آپ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں شعوری کارفرمائی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ مانا کہ عقل کے بالمقابل بھینس کا جثہ بہت بھاری ہے طاقت کا اپنا نشہ اور گھمنڈ ہوتا ہے اگر بھینسا کراکری کی دوکان میں داخل ہو جائے تو ہر حساس چیز کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس دکان کا فاتح بھی قرار پا سکتا ہے مگر امور مملکت و جہاں بانی کے لیے کسی طاقتور بھینسے کی نہیں عقل و شعور سے بہرہ ور مہذب انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

فرد واحد یا ان کا کوئی گروہ خود کو دانائی کا کتنا بڑا منبع و مرقع ہی کیوں نہ خیال کرتا ہو، اسے کروڑوں انسانوں کی اجتماعی دانش کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا صدیوں کے انسانی تجربات کا یہی نچوڑ پوری دنیا تسلیم کرچکی ہے ہم کس کلیے کے تحت اس سے فرار حاصل کر سکتے ہیں اور پھر کوئی بھی اشرافیہ کسی بھی نام نہاد اصول کے تحت کون ہوتی ہے بائیس کروڑ انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والی؟ اس ملک کے مالک و وارث جب بائیس کروڑ عوام ہیں تو پھر حکمرانی بھی اُن کے بجا طور پر منتخب کردہ نمائندوں کی ہونی چاہیے۔ کیاکوئی مہذب شہری اپنے ملازم چوکیدار یا ڈرائیور کو یہ حق دے سکتا ہے کہ وہ اُسے بیڈروم سے نکال باہر کر ے اور خود یا اپنے گماشتوں کو لا کر وہاں بٹھا دے؟ ۔ اس لیے کہ وہ جثے کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہے یا اس کے ہاتھوں میں بندوق ہے۔

اگر ہم نے آج کی مہذب دنیا میں اس نوع کی حرکات کی ہیں تو پوری دنیا میں مذاق بھی بنے ہوئے ہیں برادر جمہوری ملک ترکی کے حکمران آج اگر یہ سمجھا رہے ہیں کہ پاپولر جمہوری قیادت کو جیلوں میں بند نہ کرو انتقامی سیاست کو ترک کر دو تو ہمارا برُا نہیں بھلا ہی کر رہے ہیں کیونکہ ایسی حرکات سے جو ذلت ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہے وہ تو رہی ایک طرف خود اپنے عوام کی زندگیاں بھی ہم اجیرن بناتے جا رہے ہیں پکڑ دھکڑ اور ہوہا کا ایک خوفناک عالم ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک کا بزنس تباہ ہو چکا ہے جو لوگ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں ان سے پوچھ لیں کہ کس قدر مندا ہے ہر چیز ٹھپ ہوتی چلی جا رہی ہے سٹاک ایکسچینج بد ترین حالت میں ہے ڈالر کے بالمقابل روپیہ ٹکا ٹوکری ہو چکا ہے اس کی قیمت میں 33 فیصد کمی ہو چکی ہے بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کی ایسی فضا میں بیرون ملک سے کون یہاں سرمایہ لگانے آئے گا جبکہ ملک میں موجود خود اپنے سرمایہ کار ایسا رسک لینے کے لیے تیا ر نہیں ہیں نواز شریف کے دور میں ہماری سٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچ بہترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگی تھی جبکہ آج پانچ بدترین مارکیٹوں میں پہنچ چکی ہے 5.8 GDP تک چلا گیا تھا جس کا جنوری 2019 تک 6.2 ٹارگٹ تھا جبکہ آج 3 GDPفیصد سے بھی کمتر سطح پر ہے ٹیکسز کی وصولی میں جو کمی آئی ہے اُسے دیکھیں یا چار ماہ میں جتنے نئے قرضے چڑھے ہیں اُن کا جائزہ لیں یا گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا موازنہ کریں۔

کرپشن کی کہانیا ں گھڑتے ہوئے یہ نوید سنائی جاتی تھی اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی۔ ایسی کوئی نام نہاد دولت واپس کیا آنی تھی الٹی یہ خبریں آرہی ہیں کہ نیب اپنی لایعنی کا روائیوں سے پاکستان کو اربوں کے جرمانے کرو ا رہی ہے جن کی ادائیگی عوام کے خون پینے سے کی جائے گی۔ کرپشن کے حوالے سے اصغر خان کیس کا اس قدر شور تھا کہ ISI نے سیاستدانوں کو کروڑوں کی رشوتیں پیش کی تھیں آج عدم ثبوت کا کہتے ہوئے اس کو خاموشی سے بند کیا جا رہا ہے۔

قانون مذاق بنا ہوا ہے کھلے بندوں کہا جاتا ہے کہ اتنی رقم ڈیم کے لیے دے دو اپنی مرضی کا انصاف لے لو۔ اتنی جگ ہنسائی اور کشکول اٹھائی کے باوجود آج ہی سٹیٹ بنک کا بیان آیا ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائیر کم ہو کر 7.28 ارب رہ گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے وزراء جس نوع کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کر رہے ہیں وہ خود جمہوریت اور سسٹم کے ساتھ مذاق ہیں 172 لوگوں کے نام بشمول وزیراعلیٰ سندھ جس شتابی سے ECL میں ڈالے گئے ہیں اُن پر جوڈیشری کو بھی الٹے بانس بریلی تک باندھنے پڑے ہیں۔

۔ ۔ اور ادارہ جاتی کاروباری سرگرمیوں پر جس طرح یہ کہنا پڑا ہے کہ اگر آپ لوگ 53 کاروبار چلائیں گے تو سرحدوں کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ گویا اکیسویں صدی میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصولِ کارفرما ہے جبکہ عقل و شعور کی باریک بینی اس اصول کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ خود کو اُسی تک محدود رکھے دوسروں کے معاملات میں ٹانگیں اڑانے کاوطیرہ ترک کر دیا جائے۔ جیسا تیسا آئین موجود ہے سب اس کے ضوابط کی پابندی کا حلف نبھائیں اور آئین سے غیر آئینی چھیڑ چھاڑ یا چیر پھاڑ کا تصور اپنے اذہان سے خارج کر دیں۔ آئین سے اس نوع کی غیر جمہوری چھیڑ خانی در حقیقت اس ملک کی فیڈریشن سے چھیڑ خانی بن کر سامنے آئے گی جو پہلے ہی حالتِ اضطراب میں ہے، خدارا اس پر رحم فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2