کرائم شو اور معاشرے پر ان کے اثرات


ان کا یہ سوال بہت عجیب و غریب تھا، میڈیا کو گالیاں دینے والے ناظرین نے کبھی ان چٹ پٹے پروگراموں کی پیش کش پر غور کیا ہے؟ کوئی سنجیدہ سوال اٹھایا ہے؟ میں نے ان سے یہی کہا، میرے خیال میں اس طرح کی چیزوں پر دونوں طرح کےافراد پائے جاتے ہیں، کچھ اس کو پسند کرتے ہیں کچھ نا پسند۔ ایک سنجیدہ معاشرے میں اس کے اثرات پر دونوں جانب سے غور کیا جانا چاہیے، اور منطقی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم، کہ ہندوستان، پاکستان میں اس طرح کے پروگراموں پر کسی نے باضابطہ آواز اٹھائی ہے۔ ہماری بد نصیبی تو یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے؛ نہ تو اس طرح کے موضوعات پر ریسرچ ہوتی ہے اور نا ہی اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر کوئی غور و خوض کرتا ہے۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پورا بر صغیر کا معاشرہ دن بدن قعر مذلت میں گر رہا ہے ۔ یہ صرف جرائم سے متعلق اثرات کی بات نہیں ہے۔ ماحولیات، بیماری، حفظان صحت وغیرہ جیسے موضوعات کو بھی لے کر، ہمارے یہاں آپ کو غیر سنجیدگی ہی نظر آئے گی۔ گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، اور جب تک آپ کسی چیز کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے، اس کے حل کی تدبیر کیسے نکالیں گے۔ 

فرحان نے پوچھا، کیا آپ کے ذہن میں یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ پولیس، مجرم، اور عدلیہ کے بیچ کسی بھی تیسرے گروہ کا کمرشل مقاصد کے لیے حائل ہونا، پہلے ہی سے خستہ حال نظام عدل کو مزید متاثر کر رہا ہے؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے، کہ 
بالکل متاثر کر رہا ہے۔ ہمارے یہاں عدالتی نظام جس سست روی کا شکار ہے، اسی کی وجہ سے یہ عناصر  فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جرمن سماجی علوم کے ماہر جرگن  ہیبر ماس  نے 18 ویں صدی سے لے کر اب تک کے ميڈيائی ترقی کا مطالعہ کیا، ان کی تحقیق کے مطابق لندن، پیرس اور تمام یورپی ممالک میں، اس کا رواج  پبلک اسفیر کے آس پاس  ہوا۔ عوامی مباحثے کو کافی ہاوس اور سیلون سے حاصل کیا گیا تھا، لیکن یہ طویل عرصے تک نہیں تھا۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاست پارلیمان میں اور میڈیا میں ہوتی  ہے، جب کہ عوام کے مفادات اقتصادی مفادات پر غلبہ رکھتے ہیں۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ عوام کے خیالات کا تبادلہ، کھلے عام نہیں، بلکہ بڑے لوگوں کے اثرات اور توڑنےمروڑنے کے انداز پر منحصر ہے۔ ظاہر ہے کہ اکثر اقدام جنھیں عوام کے نام پر کیا جاتا ہے، وہ اصل میں خود سکھ سے متاثر دماغی تانے بانے کا شکار ہوتی ہے۔

جرم کے نام سے تیزی سےکٹتی فصل بھی اس نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ قریب 225 سال کی عمر پرنٹ میڈیا اور 60 سال سے ٹِکے رہنے کی جد و جہد کرتے الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کا پیمانہ، جرم کی بدولت اکثر چھلكتا ظاہر ہوتا ہے۔ خاص طور پر 24 گھنٹوں کے ٹیلی ویژن کی تجارت میں، جرم کی دنیا خوشی کا سب سے بڑا سبب بن گیا ہے؛ کیوں کہ جرم کا دریا کبھی  بھی خشک نہیں ہوتا۔ نادان صحافی مانتے ہیں کہ جرم کی ایک انتہائی معمولی خبر میں بھی اگر مہم جوئی، راز، مستی اور تجسس  پروس دیا جائے، تو وہ چینل کے لیے دل چسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔

’گونگا باکس‘ کہلانے والا ٹی وی، اپنی  پیدائش کے کچھ ہی سال بعد اتنی تیزی سے کروٹیں بدلنے لگے گا، اس کا تصور آج سے چند سال پہلے شاید کسی نے بھی نہیں کیا ہو گا، لیکن ہوا یہی ہے اور یہ تبدیلی اپنے آپ میں ایک بڑی خبر بھی ہے۔ میڈیا انقلاب کے اس دور میں، قتل، عصمت دری اور تشدد کے واقعات، سبھی میں کوئی  نہ کوئی خبر ہے۔ یہی خبر  24 گھنٹے کے ٹی وی چینل کی خوراک ہے۔ یہ نئی صدی کی نئی چھلانگ ہے۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا، کیا یہ سنسنی خیز پروگرام، سماج میں شک، عدم تحفظ اور خوف سمیت دیگر تباہ کن نفسیاتی عوارض کا باعث بن رہے ہیں؟ مجھے لگتا ہے بالکل بن رہے ہیں اور حکومت کے ساتھ ساتھ  یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو اس جانب توجہ دینا چاہیے، اور اس کی پوری تحقیق کر کے اس سے سماج میں پڑنے والے اثرات سے عوام کو رو برو کرانا چاہیے۔ اس وقت ہمارے سامنے میڈیا کا جو چہرہ ہے، وہ مستقل تغیر پذیر ہے۔ اس میں اتنی لچک ہے کہ پلک جھپکتے ہی، یہ ایک نئے اوتار کی شکل میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے۔ نئے زمانے میں نئے انداز اور جرم کے نئے طریقوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسے میں اس کے روک تھام کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah