اپنے گریبان میں جھانکںے کی ضرورت


جیسا کہ عنوان سے عیاں ہے کہ ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ آج کل کے دور کا المیہ یہی ہے کہ ہر خرابی کا دوش دوسروں کو دینا اور ہر برائی کا مورد لزام دوسروں کو ٹھہرانا۔ اپنے آپ کو ہر برائی سے مبرا قرار دینا۔ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی برائی پنپ رہی ہے تو ہم بجائے اس کا سدباب کرنے کے دوسروں پہ الزام دھرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس کے عوامل کو جاننے کی بجائے اس پر تجزیے پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ معاشرہ کن اجزا سے تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے کے حصے کیا ہیں؟ ہم لوگ ہی اس کا حصہ ہیں۔ مثلا اگر بے حیائی ہے تو اس کا الزام بھی دوسروں کو ٹھہرائیں گے۔ بجائے اس کے کہ اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی نظروں کو نیچی رکھیں، اپنے آپ کو حیا دار بنائیں۔ ہم اس کا الزام بھی لوگوں کو دیتے ہیں۔ اگر کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس میں خرابی ہو تو اس کا الزام دیں گے کہ زمانہ خراب ہے۔ کیا ہم زمانے کا حصہ نہیں ہیں؟ ہم کیوں نہیں اپنے اپنے اعمال کو سنوارتے؟

ہم کرپشن کرتے ہیں اگر ہم صفائی کا کام کرتے ہیں۔ ہم کرپشن کرتے ہیں اگر ہم طالب علم ہیں۔ ہم اپنے پیپر حل کرنے میں ایمانداری نہیں دکھاتے۔ ہم اس میں بھی نقل سے کام لیتے ہیں۔ ہم کرپشن کرتے ہیں ایک ڈاکٹر کی صورت میں۔ ہم اپنے مریضوں کو پیسوں کے لیے غلط دوائیاں لکھ کے دیتے ہیں۔ غریبوں کا علاج نہیں کرتے۔ ہم کرپشن کرتے ہیں ایک وکیل کی صورت میں۔ ہم غریبوں کو ان کا حق نہیں دلاتے۔ ہم طاقتور کے حق میں دلائل دیتے ہیں چاہے وہ مجرم ہی کیوں نہ ہو۔ ہم کرپشن کرتے ہیں جج کی صورت میں۔ ہم پیسے والے لوگوں کے حق میں فیصلے دیتے ہیں، ہم غریبوں کو انصاف نہیں دیتے۔

ہم کرپشن کرتے ہیں ایک استاد کی شکل میں۔ ہم اپنا فرض ایمانداری سے ادا نہیں کرتے۔ اپنے طالبعلموں کو اخلاقیات اور اپنی اقدار نہیں سکھاتے۔ وہ نہیں پڑھاتے جو ان کے لیے ضروری ہے۔ ہم کرپشن کرتے ہیں ایک باپ کی صورت میں، اولاد کو اپنا وقت نہیں دیتے۔ ہم کرپشن کرتے ہیں ایک ماں کی صورت میں جو پیسے کمانے کی دھن میں اپنی اولاد کو فراموش کر دیتی ہے۔ غرض ہر کوئی جتنا ممکن ہو سکے کرپشن میں حصہ ڈالتا ہے۔ تو کیوں نہ سب سے پہلے اپنا آپ ٹھیک کریں۔ اپنا گریبان دیکھیں۔ کیوں کہ جب سب اپنے آپ کو سنواریں گے تو یہ معاشرہ سنورے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).