حکومت سچ چھپا رہی ہے یا جھوٹ کو سچ بنا رہی ہے؟


پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے آج سہ پہر لاہور میں ساہیوال سانحہ کے بارے میں پریس کانفرنس کی اور سی ٹی ڈی کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے دستیاب شواہد کی بنیاد پر بتایا کہ سانحہ کا شکار ہونے والی کار میں سوار ذیشان نامی ایک شخص دہشت گرد اور داعش کا رکن تھا بلکہ یہ گاڑی بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوتی رہی تھی۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد منعقد کی گئی اس پریس کانفرنس سے حکومت کی نیت اور واقعہ کی صحت کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے آنے کی بجائے مزید سوال سامنے آئے ہیں اور حکومت کے ارادوں اور طریقہ کار کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہؤا ہے۔ اگر محکمہ انسداد دہشت گردی کی ٹیم نے انٹیلی جنس رپورٹوں اور دیگر معلومات کی بنیاد پر درست گاڑی کو نشانہ بنایا تھا اور گاڑی میں موجود ایک شخص نے پہلے فائر کیا تھا اور گاڑی میں سے دو خود کش جیکٹیں، 8 گرنیڈ، پستول اور گولیاں برآمد ہوئی تھیں، تو اس واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی کی ٹیم کو گرفتار کر نے اور ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کیا جواز ہے؟ کیا حکومت ایسے ہونہار پولیس والوں کو محض چند درجن لوگوں کے مظاہرے اور میڈیا پر اٹھنے والے ہنگامے کی بنیاد پر قربانی کا بکرا بنا دے گی؟ پھر قانون کی اس سربلندی اور رٹ کا کیا ہؤا جس کا ذکر وزیر اعظم نے آج ہی اپنے پیغام میں کیا ہے؟

راجہ بشارت کا بیان دو ٹوک اور واضح ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سانحہ میں ملوث گاڑی دہشت گردوں کے استعمال میں تھی اور انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کے پاس اس بارے میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کار کا ڈرائیور ذیشان داعش کے لئے کام ہی نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے گھر پر دہشت گرد ٹھہرے ہوئے تھے جو ساہیوال فائرنگ کی خبر سن کر وہاں سے فرار ہوگئے لیکن مستعد پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور گوجرانوالہ میں انہیں گھیر کر مار ڈالا گیا۔ راجہ بشارت نے متنبہ کیا کہ اگر سی ٹی ڈی یہ کارروائی نہ کرتی تو یہ دہشت گرد صوبے میں بہت بڑا نقصان پہنچا سکتے تھے۔ صوبائی وزیر قانون نے دعویٰ کیا ہے کہ ذیشان کا گھر دہشت گردوں کا ٹھکانہ تھا اور پولیس کافی دنوں سے اس کی نگرانی کر رہی تھی۔ اسی نگرانی کے نتیجہ میں جی ٹی روڈ پر اس کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور یہ سانحہ رونما ہوگیا۔ جس کی وجہ سے اصل واقعہ کی شکل بدل گئی۔

مختلف اوقات میں سی ٹی ڈی کی طرف سے اس واقعہ کی جو وضاحتیں دی گئی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے اس تبادلہ میں گاڑی کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ کار میں بچے بھی سوار تھے۔ جبکہ راجہ بشارت یہ بتا رہے ہیں کہ پولیس اور انٹیلی جنس ادارے گاڑی کی روانگی کے وقت سے ہی اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ اب تو صرف یہ جاننا باقی ہے کہ خاندان کے سربراہ خلیل کا ذیشان سے کیا تعلق تھا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس اس کار کی نگرانی کررہی تھی تو اسے یہ کیوں معلوم نہیں تھا کہ سفر کے آغاز پر کون کون اس میں سوار ہؤا تھا؟ راجہ بشارت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس ایکشن میں سی ٹی ڈی کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ارکان بھی شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے پھر اس سانحہ میں ملوث صرف پولیس اہلکاروں کو ہی گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟

پنجاب کے وزیر قانون کی پریس کانفرنس میں ’حقائق‘ سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت کو یہ جواب بھی دینا ہے کہ اگر ساری معلومات موجود بھی ہیں اور مصدقہ بھی ہیں۔ اور اگر یہ کار دہشت گردی میں ملوث تھی اور اسے ایک دہشت گرد ہی چلا رہا تھا تو پھر حکومت کو جے آئی ٹی بنانے اور اس کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ یا وزیر قانون کے انکشافات کے بعد جے آئی ٹی کے سامنے لائے ہوئے ’حقائق‘ کی کیا اہمیت باقی رہ جائے گی؟

پنجاب کے وزیر قانون کی پریس کانفرنس کے بعد اب وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کو یہ جواب دینا ہے کہ میڈیا کے دباؤ میں آئی ہوئی حکومت سچ بیان کر رہی ہے یا کسی سچ کو چھپانے اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali