ایدھی صاحب کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا؟


ایدھی صاھب انٹرویو دے رہے تھے تو حوالہ آگیا جنت جہنم کا ۔ کہتے ہیں کہ یہ دینی جماعتوں والے مجھے بے دین اور ملحد کہتے ہیں اور مجھےتو ویسے ہی نہیں جانا جنت میں کہ وہاں تو خوشحال لوگ ہوں گے۔ میں تو جہنم میں جائوں گا ، وہاں دکھی لوگ ہوں گے، ان کی خدمت کروں گا۔

کراچی کے ایک مولوی صاحب سے کسی نے سوال پوچھ لیا کہ آخرت میں مولانا فضل الرحمن کا مقام زیادہ ہو گا یا عبدالستار ایدھی کا۔۔۔۔ جواب کچھ یوں دیا کہ ’’تمھیں شرم نہیں آتی۔۔۔۔ زنادقہ اور ملاحدہ کو اہل حق کے نمائندگان کے ساتھ ملاتے ہوئے۔ کہاں وہ زنا کا حامی، کہاں مولانا کا مقام‘‘۔

خیر یہ تو وہ مائنڈ سیٹ ہے جو بے نظیر بھٹو کے خلاف عورت کی حکمرانی غیر اسلامی کہہ کر مہمیں چلاتا تھا اور پھر بوقت ضرورت عہدے کی چاہ میں عورت کی حکمرانی کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیتا تھا۔ مگر لطف کی بات تو یہ سنیے۔۔۔ فرمانے والے ایک سرخے دوست ہیں جو اپنے نظریاتی کیفیت کو ہروقت طاری کیے سرخ ہی رہتے ہیں۔ ان صاحب کو فلسفہ اشراکیت پر مکمل عبور ہونے کادعوی بھی ہے ۔۔۔۔ خیر سنیے فرماتے ہیں:

’’جو “کمیونسٹ” اسے اچھا کہہ رہے ہیں لیکن ساتھ نظام کی بات نہیں کر رہے ان کی منافقت میں پچھلے کئی سال سے دکھا رہا ہوں۔ کمیونسٹ خیرات اور خیراتی اداروں کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور اس کا اظہار کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے۔ جو خود کو کمیونسٹ بھی کہے اور خیراتی کاموں کو بھی سراہے وہ کمیونسٹ نہیں منافق ہے۔ ایدھی صاحب اچھے انسان تھے اور خیراتی کام کرتے تھے۔ عنقریب ملک ریاض صاحب جو خیراتی کاموں میں ان سے پیچھے نہیں، ان سے بازی لے جائیں گے۔ پھر آپ مجھے کہیں گی کہ ملک ریاض کو بھی کمیونسٹ قرار دے کر تعریف کروں؟‘‘

ایک اور جگہ خوش الحانی کا نمونہ دیکھیں:

’’باقی یہ بونگی دلیل کہ انہوں نے ایک روپیہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا انتہائی گھٹیا سوچ کی عکاس ہے۔ کیوں کرے کوئی ایسا؟ اس کے باپ کا مال ہے؟‘‘

دونوں ہی بیانیوں پر بحث لاحاصل ہوگی۔ توجہ کسی اور طرف مبذول کرانے کی خواہش تھی۔ شعور کی زندگی شروع ہوئی تو سیاسی اسلام کا نعرہ تھا کہ بس دل میں کھب سا گیا۔ مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار صاحب کی تشریحات پر اندھا اعتبار تھا۔ حتی کہ کیفیت اس مقام تک جا پہنچی کہ غیر سیاسی اسلام کا پسندیدہ ترین مبلغ بھی ایک آنکھ نہ بھاتا۔ بس ہر وقت مشرق سے ابھرنے والے اس سورج کا انتظار لگا رہتا جو مغربی تمدن کے شاخ نازک پر بنے آشیانے کو راکھ کر دیتا۔ نظریں اخبار پر جاتیں تو صرف ایک خبر ڈھونڈتیں کہ ہمارا مسیحا نمودار ہوا کہ نہیں۔ کبھی ملا عمر کی ’ذات اقدس‘ پر نگاہ گڑی تو کبھی ’’حجاز کے شہزادے اسامہ‘‘ کے لیے راتوں کو رو رو کر سجدوں میں دعائیں کیں۔ کوئی ان کے خلاف بولتا یا اخبار میں لکھ دیتا تو واللہ دل کرتا تھا کہ۔۔۔۔۔۔

خیر ماہ وسال کا سلسلہ چلتا رہا۔ بدگمانی کا سلسلہ کب شروع ہوا۔ طویل داستان ہے۔ چلتے چلتے ’عقل سلیم‘ نے اشتراکیت میں پناہ ڈھونڈی۔ وہی اقبال جس سے سیاسی اسلام کے نعرے اخذ کیے جاتے تھے، اسی سے اشتراکیت کشید کرتے رہے۔ مزدوروں کی حکومت کا خواب آنکھوں میں سج گیا۔ سرمایہ کار کائنات کی سیاہ ترین مخلوق لگنے لگے۔ جمہوریت اور بے مہار انسانی حقوق زہر لگنے لگے۔ دوستوں میں کسی کو جرات نہ ہوتی تھی کہ اشتراکی اصولوں کو تنقید کی زد میں لا سکتے۔ مارکس، لینن، ٹراٹسکی مقدس ہستیاں قرار پا چکی تھیں۔ الماری میں اب موٹی جلدوں والی سیاہ کتابوں کی بجائے صرف سرخ کتابیں نظر آنے لگیں اور ہتھوڑا و درانتی ہر وقت سر پر پڑنے اور دل پر چلنے لگے۔ اخبار سرمایہ داروں کے مکر سے بھرے نظر آتے۔ انقلاب روس کا وطن عزیز میں دوسرا جنم لانے والے جذباتی ہیرو لگنے لگے۔ باقی ہر نظریہ استعمار کا ایجنٹ محسوس ہوتا تھا۔

ماہ و سال کی گردش اس چھکڑ سے بھی بخیر نکال لائی۔ اب کیا سوچ ہے اس پر بات کرنے کا وقت نہیں۔ بتانا یہ تھا علم سے محروم معاشروں میں جذباتی نعرے کا سکہ چلتا ہے۔ محروم معاشروں میں یا موت کے بعد کوئی اعلی تر زندگی ہوتی ہے یا ایک دن کے خواب۔ کہ کھلی آنکھ سے سب مٹ مٹا کر نئی دنیائیں تراشتے رہیں۔ اور علم پرور معاشروں میں انسان کی فلاح آنکھ کا تل ہوتی ہے۔ ذرے کا دل چیر کر خورشید کا لہو ٹپکانے کی خواہش ہوتی ہے۔ جمالیات کا احساس رہتا ہے، تخلیقی رویوں کی آبیاری ہوتی ہے، انسان کا شرف ہوتا ہے، انسان کے حقوق ہوتے ہیں۔ دلیل کی حکومت ہوتی ہے۔

ادھر ہم نے دلیل کو شرمسار کرنے پر کمر باندھی ہے اور ادھر ایدھی صاحب ، حسب خواہش جہنم پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے ہر معروف بیانیے کے برعکس انسان کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تھا۔ جناب ایدھی صاحب جہنم مبارک۔ دکھیاروں کی دنیا کو جنت بنانے والے اگر جہنم میں بھی چلے جائیں تو سودا کچھ زیادہ مہنگا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments