ڈی جے بینڈ والی شادیاں اور نکاح خواں بیچارے!


مقبوضہ کشمیر سے آنے والی یہ چھوٹی سی خبر واقعی قابل غور ہے۔ آج کل کا ایک اہم مسئلہ شادی ہالز میں نکاح خواں کو کرائے جانے والے طویل انتظار اور اس دوران تیز موسیقی اور باراتیوں کے بھنگڑے اور ناچ گانے سے متعلق ہے۔

ہمارے ہاں کسی بزرگ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے کہ وہ مسجد کے مولوی صاحب کو پابند کریں۔ اب وہ بزرگ کئی گھنٹے پہلے ہی مولوی صاحب کو فون کر کے بلا لیتے ہیں۔ ہر فون پر بات یہی ہوتی ہے کہ بارات تو بس پہنچنے ہی والی ہے۔ شائد انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اور ہی مصروف نہ ہو جائیں۔ بیچارے مولوی صاحب کو بلا کر ایک کونے میں بیٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کا کوئی واقف نہیں ہوتا اور ویسے بھی اس ” خوشی ” کے موقعے پر کون دین کی باتیں کرنا چاہے گا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مہمانوں کا استقبال اور میل ملاقات۔

مسئلہ آج کل باراتوں کے لیٹ ہونے اور شادی ہالز کی جانب سے ڈی جے سسٹم کی تیز آواز میں میوزک لگانے کا ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کو بھی یہ سب گانے سننا پڑتے ہیں۔ اسی دوران ایک دو گننٹے کے انتظار کے بعد جب بارات آتی ہے تو نوجوان خوب رقص بھنگڑوں اور ہلے گلے کا اودھم مچاتے ہیں۔ خوشی کا موقع ہوتا ہے، جی کون روکے گا۔ آتش بازی ہوتی ہے اور فائرنگ بھی۔ ساتھ ساتھ مخصوص انڈین گانے۔ یہ سرگرمیاں بھی ایک آدھ گھنٹے جاری رہتی ہیں۔

سب چیزوں سے فارغ ہو کر نکاح کی فکر ہوتی ہے۔ مولوی صاحب کو کونے سے ڈھونڈ کر اسٹیج پر لایا جاتا ہے۔ نکاح ہوتا ہے۔ شکر ہے اس دوران میوزک بند کر کے احسان کر دیا جاتا ہے۔ نکاح ہوتے ہی مولوی صاحب کی جان چھوٹتی ہے۔ خاندان کا کوئی بزرگ انہیں رخصت کرتا ہے اور معمولی معاوضہ بھی دے کر احسان جتلایا جاتا ہے۔ یہ تلقین کرنا بھی نہیں بھولتے کہ نئے جوڑے کو اپنی خصوصی دعاؤں میں ضرور یاد رکھئیے گا۔ نکاح کے لئے جانے والے علمائے کرام ہی اس اذیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

خبر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علمائے کرام نے اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ایسی شادی تقریبات میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں میوزک۔ رقص اور بھنگڑوں کا اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر واقعی کچھ علمائے کرام ایسی تقریبات میں جانے سے انکار کر دیں تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).