اگر اللہ میاں ہمیں کالا کلوٹا بنادیتے تو ہم کیا کرتے؟


لیکن اب بھی بہت سارے خاندان ہوں ‌ گے جہاں ‌ یہ حالات اب بھی چل رہے ہوں ‌ گے، اس لیے یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔ برائے مہربانی شادی کلچر سے اپنے ذہن کو آزاد کریں اور ہر انسان کو اس کا بہترین بننے میں ‌ مدد کریں۔ مہذب دنیا اپنے لولے لنگڑے، اندھے اور گونگے افراد کو سہارا دیتی ہے اور ان کو زندگی میں ‌ کچھ کردکھانے کا جذبہ دیتی ہے نہ کہ نارمل افراد کی نارمل باتوں ‌ کو بنیاد بنا کر ان کی شخصیت مجروح‌ کرتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں ‌ اور میری روم میٹ کسی کے گھر گئے تھے جہاں ‌ ان خاتون کی تین سال کی بچی تھی۔ انہوں ‌ نے باتوں ‌ باتوں ‌ میں ‌ کہا کہ ہماری بچی کالی ہے۔ کچھ منٹ کے بعد جب ہم لوگ دوسرے کمرے میں ‌ گئے تو وہ بچی اپنے چہرے پر سفید پوڈر لگا رہی تھی۔ شاید لوگ سمجھتے ہوں ‌ کہ تین سال کے بچے کو کچھ سمجھ نہیں ‌ ہوگی لیکن یہ بچیاں ‌ بہت کم عمری سے سب کچھ سمجھ رہی ہیں۔

چانڈکا میڈیکل کالج میں ‌ میری روم میٹ ایک سندھی لڑکی تھی۔ وہ بہت خوبصورت لڑکی تھی اور اس کی شکل ایشوریا رائے سے بہت ملتی تھی اور ہم لوگ اس کو مذاق میں ایشوریا رائے ہی کہتے تھے۔ اس کا رنگ اپنے باقی بہن بھائیوں ‌ سے کچھ گہرا تھا جس کی اس کی امی یاد دہانی کرواتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ ہم لوگ اس کے گھر گئے تھے اور کسی پارٹی میں ‌ جارہے تھے۔ اس کی امی نے کہا کہ تم پوڈر لگا لو تو وہ چلا پڑی کہ آپ برائے مہربانی مجھے یہ بتانا چھوڑ دیں ‌۔ سوچیں کہ یہ نوجوان افراد ذاتی زندگی میں اور پروفیشنل زندگی میں ‌ کامیابی کے لیے دنیا میں ‌ کتنی جدوجہد اور مقابلہ کررہے ہیں۔ کیا ہمیں ان کی ہمت افزائی کے بجائے فضول اور غیر ضروری باتوں کو بنیاد بنا کر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے؟

جب میں ‌ یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں ‌ اینڈوکرنالوجی کی فیلوشپ کررہی تھی تو وہاں ‌ اور بھی پاکستانی ڈاکٹرز تھے۔ ایک جونئر نے اپنے گھر بلایا۔ میں ‌ ان کے گھر ڈنر پر گئی تو ان کی بیگم اور دیگر خواتین نے کھانے کے بعد ایک تبلیغی آنٹی کا لیکچر اسپیکر پر لگایا۔ اس پروگرام کا مجھے پہلے سے معلوم نہیں ‌ تھا۔ اس لیکچر کی ایک بات مجھے ابھی تک یاد ہے۔ ان اسپیکر نے کہا کہ ہمیں ‌ اللہ میاں ‌ کا شکر کرنا چاہیے۔ اگر وہ ہمیں کالا کلوٹا بنادیتے تو ہم کیا کرتے؟

یہ سن کر میں ‌ نے چونک کر باقی خواتین کو دیکھا لیکن وہ بچوں ‌ کی طرح‌ ہاں ‌ میں ‌ ہاں ‌ ملا رہی تھیں۔ یہ کیسے خیالات ہیں؟ اگر میں ‌ افریقی پیدا ہوتی تو بھی کیا تھا؟ کیا افریقی انسان نہیں ہیں؟ کیا جنوب ایشیائی ہونے کی وجہ سے مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ میں سفید فام کیوں ‌ نہیں؟ ہمیں اپنے خیالات بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ جلد کے رنگ کے بارے میں ‌ سائنسی تھیوری یہ ہے کہ تمام انسان افریقہ سے ہی شروع ہوئے اور شمال میں ‌ ہجرت کے ساتھ آہستہ آہستہ ارتقاء کے پروسس سے گزر کر جلد میں ‌ وٹامن ڈی بنا سکنے کے لیے ہلکے رنگ کے ہوتے چلے گئے۔ ایک دوسرے کو تفرقات کی بنیاد پر نیچا کرنے سے دنیا کل وہ جگہ نہیں ‌ بن پائے گی جو ہم اپنی آنے والی نسلوں ‌ کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔

Norman’s first black homeowners reflect on five decades of culture shock and progress


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2