سانحہ ساہیوال: آزادی کے نام پہ بس ایک مینار ملا ہے


ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیں کہ والدین کو قتل کرنے کے بعد پہلے بچوں کو پٹرول پمپ پہ چھوڑا اور پھر واپس آکے ہسپتال کے باہر چھوڑ آئے اور بجائے اپنے کیے پہ شرمندہ ہونے کے، ندامت محسوس کرنے کے الٹا مقتولوں کو ہی گناہ گار قرار دیتے رہے۔ سی ٹی ڈی کے پاس اس کارروائی کا اکلوتا اور کمزور ترین جواز بالآخر یہی تھا کہ ذیشان کو دہشت گرد قرار دے مگر آخری اطلاعات می موصول ہونے تک اس بارے کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں قطعاً ناکام رہی، سی ٹی ڈی کی یہی دلیل تو پنجاب حکومت نے مان کر آپریشن کو 100 یصد درست قرار دیا۔

قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پہ

ساہیوال کا واقعہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے کہ جس میں سرکاری ملازموں نے خود سرکار اور مالک بن کر عوام کی زندگی اور موت کے فیصلے سنائے بلکہ کراچی سے لے کر تفتان تک اور فاٹا سے لے کر گلگت بلتستان تک عدم تحفظ اور لاقانونیت کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ المیہ یہی ہے کہ سرکار اور میڈیا کے کاغذوں میں مظلوم وہی ہیں کہ جن پہ ہونے والا ظلم کیمروں کی آنکھ میں محفوظ ہوا اور پہلے سوشل میڈیا پھر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے شہریوں نے دیکھا۔

اس کے بعد حکومت اور ریاست کے نام نہاد ستون اس کے خلاف بادل نخواستہ کارروائی کرنے پہ مجبور ہوئے۔ حقیقت یہ نہیں کہ حکمران اور اداروں کے سربراہان حقیقت حال سے آگاہ ہونے کے بعد عوام کا احساس کرتے ہوئے ایسے واقعات کا نوٹس لیتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سامنے اپنی اور اپنے فرسود ہ نظام کی ستر پوشی کے لئے ایسے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے کا وقتی ڈھونگ رچاتے ہیں تاکہ اپنے وجود کی ضرورت کا احساس دلا پائیں۔

ریاست کے نزدیک تو ایسے واقعات کنواری لڑکی سے زیادتی والا معاملہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر تو زیادتی کی خبر شہر بھر میں پھیل جائے تو پھر قانونی کارروائی اور ذمہ داروں کو سزا دلانے کا عزم اور اگر بات باہر نہ نکلے تو خاموشی اور برداشت کرنے میں عافیت کا مشورہ۔ ورنہ کتنے ہی ہتھکڑیوں میں جکڑے گناہ گار اور بے گناہ ملزمان اور مجرم پولیس مقابلوں میں پار کر دیے گئے اور قاتل سینے پہ میڈل سجائے مونچھوں کو تاؤ دیتے داد و تحسین وصول کرتے رہے۔

یہاں گاڑی لٹنے کے بعد مسافر تھانے میں رپورٹ کرانے پہنچتے ہیں اور ایک مسافرہ سفید کپڑوں میں ملبوس شخص کا گریبان پکڑ کے چلاتی ہے کہ جناب یہی ڈاکو ہے، اسی نے میری چوڑیاں اتاریں تھیں اور سنتری بادشاہ کہتا ہے کہ او بی بی خیال کر، یہ اپنے تھانے کے ایس ایچ او ہیں۔ رکن قومی اسمبلی کو اپنے گھر کے دروازے پہ قتل کیا جاتا ہے اور ادارے ایسے شخص کو قاتل بناکر پیش کرتے ہیں کہ جو قتل سے کئی ماہ پہلے سے ہی اداروں کی تحویل میں ہوتا ہے اور اس کے خلاف مقامی تھانے سمیت انسانی حقوق کی وزارت میں بھی بازیابی کی درخواست دائر ہوتی ہے۔

عدالت کے اندر اور عدالت سے باہر ثابت ہو جاتا ہے کہ انکاؤنٹر سپیشلسٹ راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں نوجوانوں کو قتل کیا مگر اس کے باوجود راؤ انوار کا کوئی ادارہ بال بھی بیکا نہیں کر پاتا۔ 11 کسانوں کو زمین کے تنازعہ پہ دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے والے میجر ارشد جمیل کی سزائے موت پہ بھی اس وقت تک عملدرآمد نہیں ہوتا کہ جب تک مقتول کی بہنیں پریس کلب کے سامنے خود کو آگ لگا کر خود سوزی نہیں کرتیں۔ سیالکوٹ، خروٹ آباد، کراچی، ڈی آئی خان، پارا چنار اور اس جیسے بیسیوں واقعات منظر عام پہ آنے کے باوجود بھی ذمہ داران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔

یہ سلسلہ انسداد دہشتگردی کے نام پر جعلی مسلح مقابلوں یا جبری گمشدگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور قبضہ مافیا تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے بڑی شہروں بالخصوص وفاقی یا صوبائی دارالحکومت سے ہائی پروفائل شخصیات کے اغوا برائے تاوان کے واقعات میں مغویوں کی منتقلی آج تک نمایاں سوالیہ نشان ہے۔ لینڈ مافیا یا بھتہ خوری کا جوبھی معمولی سرا پکڑیں چلتے چلتے یا تو سرکاری ملازم تک پہنچتا ہے یا پھر خود سرکار تک۔

چند دن پہلے کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مغوی کے بھائیوں نے اہل محلہ اور مومن آباد پولیس کی مدد سے بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں سوار 4 اغوا کاروں کو پکڑا۔ تھانہ پولیس کے مطابق 17 جنوری کو مومن آباد ملک چوک سے سعید نامی سنار کو دکان سے اٹھایا گیا تھا، اہلخانہ نے مومن آباد تھانے میں واقعے کی رپورٹ درج کرائی تھی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان سے 3 لاکھ تاوان مانگا گیا، تاہم ڈیڑھ لاکھ پر معاملہ طے ہوا۔

سعید خان کی حوالگی کے لئے بورڈ آفس کے قریب پوائنٹ کا انتخاب کیا گیا، جہاں مغوی کے بھائی اور دیگر عزیز خفیہ طور پر جمع ہوئے اور مومن آباد پولیس کو بھی اطلاع دی، ملزمان کی ”ویگو“ جیسے ہی وہاں پہنچی تو پہلے سے موجود لوگوں نے اسے گھیر لیا اور اس میں سوار افراد کو پکڑ کر مغوی کو بازیاب کرا لیا۔ پولیس نے ملزمان کو مومن آباد تھانے منتقل کیا۔ ایس ایچ او آصف منصورکے مطابق تحقیقات مکمل ہونے تک وہ ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ مغوی کے بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ ملزمان خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں اور متعلقہ ایجنسی کے سربراہ ایس ایچ او سے رابطے میں ہیں، جبکہ ایس ایچ او کا دعوی ہے کہ ویگو میں سوار افراد اغوا کار نہیں بلکہ حساس ادارے کے اہلکار ہیں، جنہیں ان کے سربراہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کس میں اتنی تاب ہے کہ حساس اداروں کے ایسے اغوا کاروں کے خلاف کسی کارروائی کا محض ارادہ ظاہر کریں یا کیا گارنٹی ہے کہ یہ مغوی دوبارہ اغوا نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی انجانی، اندھی گولی کا شکار ہوگا اور اگر اغوا ہوا بھی تو تاوان کی ادائیگی کے بعد صحیح سلامت دوبارہ بازیاب ہو پائے گا۔ دو دن قبل قومی اسمبلی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والا ایک رکن اپنی تقریر کے دوران رو پڑا۔ کہتا ہے کہ جان لے لو، زمینیں بازار لے، گھر مکان اناج لے لو، ہمیں کوئی حرج نہیں مگر خدارا ”خیسور گاؤں“ میں پیش آنے والے واقعات ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہیں، اس کا تدارک کریں۔

خیسور گاؤں میں کیا واقعہ پیش آیا ہے، یہ بتانے کی ضرورت ہمارے آزاد میڈیا نے تاحال محسوس نہیں کی۔ حکومت اور اداروں کی اولین ذمہ داری یہی ہونی چاہیے کہ اداروں پہ عام شہری کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے اداروں میں چھپے ان کالے بھیڑیوں کے خلاف سخت سے سخت تادیبی کارروائی کریں کہ جو ریاست کے دیے اختیارات اور طاقت کا استعمال ریاست کے عوام پہ کر رہے ہیں اور خود کو ہر قسم کی حدود و قیود سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

ان ملازموں کے دماغ سے مالک ہونے کا خبط نکالنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی سرکار کو چاہیے اپنے نام کے مصداق عام شہری کے لئے فوری اور سستے انصاف کا حصول ممکن بنائے اور شہریوں کو اپنے ہی اداروں سے تحفظ فراہم کرنے میں پائیدار کردار ادا کرے۔ ویسے ایک عام شہری ریاست سے اتنا تو پوچھ ہی سکتا ہے کہ کیا آزادی کے نام پہ ہمیں فقط ایک ”مینار“ ملا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2