ایدھی: نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا


ایک منٹ کے لئے ’ایدھی فاونڈیشن‘ کو پاکستانیوں کی قسمت سے حذف کرلیں، آپ عبدالستار ایدھی کو بھی پل بھر کے لئے ہماری زندگیوں سے اوجھل کر دیں، اب یہ سوچئے کہ 2016 تک دہشتگردی کی بھینٹ چڑھنے والی 60779 جانوں کی آخری رسومات، تجہیز و تکفین، قبریں اور سرد خانے و مردہ خانے سمیت تمام انتظامات کی ذمےداری اپنے سر کون لے گا ؟ حکومت کا کونسا ادارہ اتنا فعال ہے کہ وہ ہر دن 6،000 کالیں سنے اور 10 منٹ کے اندر بتائی گئی جگہ پر نزول فرمائے۔ کون سا سیاسی، مذہبی، فلاحی رہنما ایسا پیدا ہوا ہے جو تین حصوں میں کٹی ہوئی لاش کو اکھٹا کر کے اپنی ایمبولینس میں ڈالے گا ؟ کون ہے جو آواران، کشمیر و مظفرآباد میں زلزلے کے شکار لوگوں کی امداد کے لئے سڑکوں پر بھیک مانگے گا ؟ ذرا سوچ پر زور دیجئے کیا آپ کسی کو جانتے ہیں جو محبت و عشق کی جائز حدود کو پھلانگ کر اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے ’ناجائز انسان‘ کی پیدائش پر ’شرم‘ محسوس کرنے والوں سے التجا کرے کہ وہ انہیں قتل کرنے کے بجائے ’ایدھی جھولے‘ میں ڈالیں ہم اس ناجائز کو معاشرے کا جائز فرد بنائیں گے، ساری عمر اپنی زندگیوں کو اپنے خون پر ضائع کرنے والے ماں باپ کو جب یہی بچے اپنی ’فاسٹ لائف اور ویل سٹینڈرڈ‘ کے لیبل تلے بے سہارا چھوڑ دیں تو کوئی ان کو سہارا دے ؟ کیا کوئی تنظیم یا حکومت انہیں اپنے سر لینا قبول کرتی ہے ؟

1951 کے دنوں میں کراچی شہر ایک وبا میں مبتلا ہوگیا۔ میٹھادر کے علاقے میں کپڑے بیچنے والے 20 سالہ نوجوان اپنی اور اس دنیا کی تقدیر کو بدلنے کے لئے کمر بستہ ہوگیا اپنی جمع پونجی سے اس نے ایک ڈسپنسری کی بنیاد رکھی اور ان وباء کے دنوں میں بھیک مانگ مانگ کر ادویات خرید کر اس وبا میں مبتلا افراد کو مفت مہیا کرتا رہا ۔ نظر پختہ تھی، حوصلے جوان تھے اور ارادے مضبوط 5000 روپے سے ’ایدھی ٹرسٹ‘ کا کھاتا کھولا پھر انتظار کیا، اپنے کردار و عمل سے لوگوں کے دلوں میں رچتے گئے جھولی پھیلاتے رہے، بھیک مانگتے رہے اور ’نظریہ انسانی‘ کے سب سے بڑے علمبردار بن بیٹھے محض پانچ ہزار روپے کے ’ایدھی ٹرسٹ‘ نے 2005 میں امریکہ کے ہولناک طوفان ’کترینہ‘ کے شکار بننے والوں کی امداد کے لئے ایک لاکھ ڈالر کی امداد پیش کر دی, یہی نہیں ایک ڈسپنسری سے شروع ہونے والے سفر میں اب 8 ہسپتال، 337 ہیلتھ کیئر سینٹرز، اور ایک ایمبولینس کی کہانی میں اب 18000 پرائیوٹ ایمبولینس کا اضافہ ہو چلا تھا ۔ اس نوجوان کی مستقل مزاجی دنیا کے لئے باعث حیرت تب بنی جب 45 سال بناء چھٹی کے اپنے ’خدمت انسانی‘ کے مشن پر صف بستہ رہے اور 1997 میں ’گنیز ولڑ ریکارڈ‘ نے ’عبدالستار ایدھی‘ کو دنیائے عالم کی سب سے بڑی ’والنٹیر سروس‘ کے اعزاز سے نواز دیا، خود پڑھے نہیں تھے مگر آج 45000 طلباء ایدھی اسکولز میں انسانی خدمت کے گن سیکھ رہے ہیں۔ مگر! ان سب کے اوپر ایک اور تصویر کو تصور کریں اگر اس شام وہ نوجوان ہمت نہ پکڑتا، حوصلے کو بلند نہ کرتا، نظریہ کی افزائش نہ کرتا تو تصور کیجئے 20،000 لاوارث بچوں کا وارث کون ہوتا ؟ اس معاشرے کا المیہ ملاحظہ کیجئے جہاں 50،000 یتیم بچے بنا سہارے کے دربدر ہوتے آپ سوچ رہیں ہیں کیا ہوتی وہ تصویر ؟ کیا عبدالستار ایدھی سے بھی کوئی عظیم اس دھرتی نے پیدا کیا ہے جس نے لاش اٹھاتے ہوئے کبھی اس کا مذھب نہیں پوچھا، کبھی اس کے رنگ کو نہیں دیکھا، ذات نہیں دیکھی صرف دیکھا تو ‘انسان’ دیکھا انسانیت کو اپنا مذہب بنایا اور تا دم مرگ وہ اسی ’نظریہ انسانی‘ کی تبلیغ کرتے رہے، اور بنا کسی حکومتی مدد کے تمام دشواریوں کو اپنے کاندھوں پر جھیلتے رہے ۔ ایدھی واقعی عظیم ہے۔

ایدھی صاحب کے آخری ایام بڑے ہی سبق آموذ اور دلچسپ تھے۔ ہمارے لیے ان کی سادگی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، انہوں نے دو کپڑوں میں زندگی گزار دی ہمیں اس سے کوئی سرو کار نہیں وہ کراچی کے سب سے گنجان علاقے میں تنگ گلیوں اور دم گھٹتے ماحول میں عمر کاٹ گئے تو کیا ؟ عجب یہ تھا کہ اپنے اخری پلوں میں بھی درویشی کی صفت نہ چھوڑی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ولایت میں گردے تبدیل ہو جاتے ہیں آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماؤں نے خرچے کی ذمہ داری بھی لی مگر ایدھی تو پھر ایدھی ہے، منع کر بیٹھا ! ’ایدھی فاونڈیشن ’ کے پاس دو جیٹ طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر بھی تھا باہر علاج کروانا معمولی بات ہوتی مگر نظر کے بھی تو پختہ تھے ایدھی !

میرا مگر ایدھی صاحب سے ایک شکوہ ضرور رہے گا کہ آپ پاکستانی قوم کے بجائے کسی دوسری قوم پر یہ احسان کرتے تو وہ آپ کے نظریات، اقوال کو، خدمات کو، سادگی کو،اور درس مساوات کو پلکوں پر رکھتے نہ ہماری طرح کہ عین جنازے کے موقع پر دو صفوں کو الگ کر کے علی اعلان آپ کے نظریہ کی دھجیاں بکھیرتے، سادگی میں لپٹی زندگی کو اپنی وردیوں، گاڑیوں اور پروٹول سے روندھتے، اپنے مکروہ ’اسٹیٹس کو‘ آپ کی شاہانہ زندگی کے قصوں کو داغ دار کرتے انسان کو مردود حرم کی بیڑیوں سے آزاد کرنے کے جس عقیدہ پر آپ نے زندگی وقف کی اور مطمئن ہو کر لحد میں اترے اس عقیدہ کا مزاق اڑاتے ہوئے ہمارے ارباب اختیار نے آپ کو رسوا کر دیا مجھے یقین ہے آپ بھی اس موقع پر یہی دہرا رہے ہوں گے:

’ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا‘

( وقاص عالم انگاریہ کا لسبیلہ،بلوچستان سے تعلق ہے اور وہ کراچی یونیورسٹی میں سیاسیات، عمرانیات اور تاریخ کے طالب علم ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments