پاک و ہند


انڈیا کے سنجے منجریکر اور پاکستان کے رمیز راجا کے کمنٹری کرنے کا انداز مجھے ہمیشہ سے بے حد پسند رہا ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے پاکستانی ٹیم کے ہمراہ رمیز راجہ کو ہی دیکھتا چلاآرہا ہوں۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر کسی میچ میں اتفاقاَۤ کمنٹری نہ کرتا تو میچ پھیکا پھیکا سا لگتا تھا اور جس میچ میں دونوں ہوتے تھے تب تو مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔

اب جب کبھی رمیز راجا کو دیکھتا ہوں تو ایک بات سمجھ نہیں پاتا کہ آخر راز کیا ہے؟ وہ یہ کہ ہم بچے ہوا کرتے تھے تب رمیز راجہ کمنٹری بکس پر براجمان تھے، ہم جوان ہوئے اور اب بڑھاپے کی سیڑھی چڑھنے کی تیاری میں ہیں کیا خبر کہ کب کوئی سانپ نگل لے اور ہم نیچے چلے جائیں۔

ہم چھوٹے تھے تو شاہ رخ خان ہولی وڈ پر راج کر رہے تھے، اب ان کی آواز اور چہرے کے خدو خال دونوں سے لگ رہا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے، فلموں میں جوان ہیروئینوں کے وہ بابا لگتے ہیں، پھر بھی پوری کوشیش کرتے ہیں کہ دنیا کو محبت کی انتہا سکھا سکیں۔ ویسے شاہ رخ میرے فیورٹ ہیرو بھی رہے ہیں۔ امیتابھ بچن صاحب بڑھاپے کی مثال بنے ٹھہرے، جنرل مشرف کی آواز میں بڑا زور اور شفافیت پائی جاتی تھی، جب توانا ہوا کرتے تھے تو ملک کو یرغمال بنا کر کئی سال اپنے قبضے میں رکھا پچھلے چند سال سے وہ بڑھاپے پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، زرداری اور الطاف حسین کی آواز سے لگتا تھا کہ بڑھاپے کے آخری دھانے پر کھڑے ہیں مگر وہ تو اب بھی دنیا کے آخری انسان بننے کی آس لئے بیٹھے ہیں تاکہ کوئی نئی چال چل سکیں، عمران نیازی کے چہرے سے لگتا ہے کہ یو ٹرنز، سازشوں، رنجشوں، عالموں، بھکاریوں اور جادو گرنیوں کے جال بچھائے گئے ہوں۔

وہ خود کو جوانوں کے لیڈر کہہ کر مسند اقتدار پر آئے تھے اب لگتا ہے کہ وہ زرداری اور نواز شریف کے پہرہ دار ہوں۔ نواز شریف پر الزام ہے کہ ملک کے خزانوں سے پیسہ چرا لیا ہے تو دوسری طرف عین ممکن ہے کہ مریم نواز نے حسیناوں سے جوانی چرا لی ہو۔ فضل الرحمان اس انتظار میں ہیں کہ ان سب کا جنازہ وہ پڑھا کر ملک کا وزیر اعظم بن جائے پر طارق جمیل صاحب موقع دیں تب نا۔ ان سب کے چکروں میں چیف جسٹس صاحب الجھن میں پڑ گئے ہیں اس لیے فیصلے کچھ خاص نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان سب پر بھیڑیے بھاری رہے ہیں۔ ان سب کا سورج غروب ہوجائے اور سوال جواب والے دن سوال پوچھنے شازیب خان زادہ کو مدعو کیا جائے تو مزہ آجائے، نہ وکیل کی ضرورت نہ ہی جج یا کسی کورٹ کی۔

مختصر یہ کہ جن لوگوں کو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیں وہ تو شکل، آواز، انداز، ہر لحاظ سے بوڑھے دکھائی دے رہے ہیں لیکن رمیز راجا شکل و صورت کے تھوڑے بہت بوڑھے لگ بھی رہے ہیں تو انداز اور آواز اب بھی پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے ویسے کے ویسے ہیں، وہی تازگی، وہی روانی۔ انگریزی جملے جو کرکٹ میں استمال ہونے ہوں ایسے رٹے ہوتے ہیں جیسے کہ حافظ قرآن قاعدے رٹ کے مولوی کو سناتے ہیں۔ اور ان کا اندازِ بیاں جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا، لچک تو ان کی آواز میں ہے ہی۔ ان کا کمنٹری کرنے کے انداز میں اتنی شفافیت اور خوبصورتی ہوتی تھی کہ جس وقت ہمیں انگریزی کچھ خاص نہیں آتی تھی تب وہ کسی کی برائی بھی کرتے تو ہمیں لگتا تھا کہ وہ تعریف کر رہے ہیں۔

کافی عرصہ ہوا ہے کہ جب سے مصروفیات نے گھیر لیا ہے ٹائم کی کمی کے باعث ہم کرکٹ کے کسی بڑے ٹاکرے کے فائنل کو بھی بڑی مشکل سے دیکھ پاتے ہیں۔ پرسوں میں کچھ لکھ رہا تھا تو میرا ایک کرکٹ کا جنونی بھتیجے ’حیدر آبدین‘ نے یوٹیوب میں سرفراز کی ایک میچ کی ویڈیو کلپ دکھائی جس میں وہ کچھ الٹا سیدھا بول رہے تھے۔ میں نے دلچسپی لے کر چھان بین کی تو یو ٹیوب میں ہر چھوٹے بڑے نیوز چائنل پر سرفراز چھائے ہوئے تھے۔

ویڈیو میں آواز کافی دھیمی آرہی تھی، غور کیا تو پاکستان کے لاڈلے کپتان بڑے ہی شائستہ جملوں میں افریقی کھلاڑی سے پٹائی نہ کرنے کی بھیک مانگ رہے تھے، مگر بیچارے افریقی کہلاڑی کو زبان سمجھ نہ آنے کی وجہ سے لگا ہو گا کہ کوئی طوطا ترانہ گا رہا ہو، وہ بیٹنگ میں مگن تھے۔ ساتھی کمنٹیٹر نے رمیز راجہ سے سرفراز کے جملوں کا ترجمہ پوچھا تو رمیز کا وہی مشہور انداز جس کو سن کر ہمیں کبھی لگتا تھا کہ وہ کسی کی تعریف کر رہے ہیں ”ریلی ڈیفکلٹ ٹو ٹرانسیلیٹ اٹ، بٹ لونگ سنٹینس۔ “

ذرا سن لیجیے آپ بھی۔
میچ 22 جنوری 2019 کو کھیلا گیا تھا۔

وقار احمد، سکردو
Latest posts by وقار احمد، سکردو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).