بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات


دنیا میں وجود رکھنے والا ہر شے کسی نہ کسی غرض و مقصد کے لئے بنا ہوا ہے اور ان کے وجودیت کا اہمیت وقت اور ضرورت کے مطابق بروکار لایا جاتا ہے۔

دنیا میں ہر انسان اپنا ضرورت پورا کرنے کے لیے ہر اُس شے کو بروکار لاتاہے جو اُسکے مقصد کے حصول میں آسانی پیدا کرے اور اسُکے ضروریات پورا کر سکے۔

اس دنیا میں کوئی بھی انسان اکیلا رہ کر اپنے ضروریات پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی آسانی سے اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے لہذا اُسے دوسروں کی تعاون درکار ہوتی ہے۔ جب کچھ شخص یکلخت ہوکر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں تو اس عمل سے وہ ایک انجمن یا گروپ کا تشکیل کرتے ہیں جو کے کسی خاص مقصد کے لیے وجود میں آتاہے۔ انجمن سے جُڑے ہر فردِ واحد کے لیے یہ لازمی ہوتاہے کہ وہ انجمن کی ترقی اور مقصد کے اصُول کی لیے کام کرے اور اُس کے قانون کی پاسداری کرے۔ انجمن یا گروپ کے افراد اپنے اس باہمی اشتراک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ”ادارہ“ (institution ) کا قیام وجود میں لاتے ہیں۔

”ادارہ“ جو کسی عمل کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہوتاہے بلاشبہ اس میں شامل ہونے والے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو

ِاسے خوشنودی اور ایمانداری سے کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

ہر معاشرے میں موجود ادارے اپنے کام اور مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

جیسے کے تعلیمی ادارے جن کا بنیادی مقصد تعلیم کو فروخت دینا اور ہر فرد کو شعور اور آگاہی سے آراستہ کرنا۔ تعلیمی اداروں کا کام صرف ڈگری بانٹنا اور لوگوں کے ہجوم کو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو ایک ذمہ دار شہری اور اس کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

بلوچستان جس میں تعلیمی ایمرجنسی کا ایک ڈرامہ رچایا گیا اور یہ دعوٰی کیا گیا کہ حکومت کی سارا توجہ تعلیم کی طرف مرکوز ہے جو کہ ایک من گھڑت کہانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ موجودہ تعلیمی معیار، شرح خواندگی، % 70 سکول عمارت اور سہولیات سے محروم، گھوسٹ تعلیمی ادارے اور زیادہ تر بچوں کا سکول سے باہر ہونا اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بلوچستان بلخصوص کوئٹہ کے زیادہ تر تعلیمی اداروں کے ایڈمنسٹریٹز ڈیپارٹمنٹس جوکہ کنٹرولڈ مافیہ کے زیر سرپرستی میں چل رہے ہیں جس کہ بنا پر من پسند اور سفارشی ٹیچرز ا، اسٹوڈنٹس کے سلیکشز اور دوسرے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان فیصلوں کے وجہ سے تعلیمی اداروں میں منفی رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

طالب علم ٹیچرز کو اپنا روحانی باپ تصور کرتے ہیں جو کہ روح کا نگہداشت کرتے ہیں یعنی جو ذہنی اور عقلی نشونما کرتے ہیں اگر وہی روحانی باپ موقع پرستی، مفاد پرستی، شخصیت پسندی، تعصب پسندی، حسد، انا، ضد، بغض، تنگ نظری کا شکار ہو تو اُن سے خیر کا امید رکھنا بیکار ہے۔

مفاد اور موقع پرست ٹیچرز اپنے مفاد کے لیے طالبعلموں کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور جہان بھی اُنکے مفادات جڑے ہوں وہ اسی طرف منسلک ہو جاتے ہیں۔

تعصب پرست قوم، زبان، رنگ، نسل اور سیکس کے بنیاد پر طالبعلموں میں فرق پیدا کرتے ہیں اور نا انصافی کا بازار گرم کرتے ہیں۔ جس کے وجہ سے حقدار کو اپنے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ اس عمل سے وہ شعور کی بینائی سے محروم ہوتے ہیں اور اپنے تخلیق کردا دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں جہان وہ اپنے آپ کو سب کچھ تصور کرتے ہیں اور دوسروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ (اے خدا کسی کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کوئی اور دکھائی نہ دے )

ایسے کردار کے مالک طالبعلموں کے زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ جس سے طالبعلم ڈپریشن، ذہنی تناوّ، پریشر، اور الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اس کا زندہ مثال حال ہی میں ”بولان میڈیکل کالج کوئٹہ“ میں رونما ہونے والے واقع سے ملتا ہے۔ جس میں 3 rd year کے طالب علم یوسف پرکانی (مرحوم ) نے جینے کے بجائے موت کو گلے لگا کر زندگی کو خیرباد کہہ گیا۔

یوسف پرکانی (مرحوم) کا زندگی بھی کسی کا انا، ضد، تعصب پرستی اور مفاد پرستی کا نظر ہو گیا۔
(یہ تحریر صرف اور صرف اُن تعلیمی اداروں اور ٹیچرز کے بارے میں ہیں جو ایسے سرگرمیوں میں ملوث ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).