برادر شہزادہ ایم بی ایس کا دو دن پر محیط 20 گھنٹے کا دورہ


پلوامہ حملہ کے بعد پاکستانی عوام کو سعودی شہزادے کو خاندان کا فرد قرار دینے، ان کی آمد پر ہزاروں کبوتر رہا کرنے اور وزیر اعظم کا پروٹوکول توڑتے ہوئے خود شہزادے کی گاڑی چلا کر وزیر اعظم ہاؤس جانے کے قصے سنانے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ بھارت کی طرف سے حملہ کا خطرہ کتنا سنگین ہے اور حکومت اس سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام کررہی ہے۔  بھارت کا جارحانہ طرز عمل اور بھارتی میڈیا کی طرف سے انتقام کی صدائیں اس وقت پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے سب سے پہلے غور طلب ہونی چاہئیں۔

جس طرح بھارت میں کشمیری عوام کی ناراضگی اور مایوسی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے اور اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف لوگوں میں نفرت بھرنے کو آسان سیاسی راستہ سمجھ لیا گیا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی کو یک طرفہ معاملہ قرار دیتے ہوئے تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے اور اس پر بحث کرنے کا طرز عمل راسخ ہؤا ہے۔  پلوامہ میں ہونے والے حملہ میں نئی دہلی کی حکومت نے کسی تحقیق کی زحمتکیے بغیر پاکستان کے خلاف الزامات اور پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا ہے اور اس علاقے میں بھارتی منڈیوں اور ’صلاحیتوں‘ پر بھروسہ کرنے والی امریکی حکومت نے بھی یک طرفہ طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ’دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے‘ کا پیغام دیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات پاکستان کی امن پسندی، مذاکرات کی ضرورت اور کشمیریوں پر مظالم کا ذکر کرکے اپنے بیانات کو پرزور بنا رہے ہیں۔  حالانکہ اس وقت یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بھارتی چیلنج سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام کر رہا ہے۔  اگر بھارت کی طرف جیش محمد کے اعترافی بیان کی بنیاد پر پاکستان کو ملوث کرنے کا الزام غلط ہے تو اس تنظیم کے لیڈر کیوں پاکستانی حکام کی نگرانی میں محفوظ ہیں۔  انہیں الزامات کا جواب دینے اور اپنے جرائم کا سامنا کرنے کے لئے کیوں بھارت یا کسی عالمی ادارے کے حوالے نہیں کیا جاتا۔

یادش بخیر، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو فروری 1994 میں سری نگر میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا تھا۔ انہیں دسمبر 1999 میں ان کے بھائی عبدالرؤف اصغر نے کھٹمنڈو سے نئی دہلی جانے والے ائیر انڈیا کے ایک طیارے کو اغوا کرکے مسافروں کو رہا کرنے کے بدلے میں بھارتی قید سے آزاد کروایا تھا۔ یہ اغوا شدہ طیارہ قندھار میں اترا تھا اور مسعود اظہر کو دو دیگر قیدیوں کے ساتھ وہیں پہنچایا گیا تھا جس کے بعد وہ پاکستان آگئے تھے۔

پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ مسعود اظہر جوں ہی دستیاب ہوئے انہیں بھارت کے حوالے کردیا جائے گا لیکن اب پاکستانی حکومت چین کی مدد سے مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔  جبکہ بھارت کئی سال سے اس کا نام اس فہرست میں شامل کروانا چاہتا ہے۔  اس صورت میں پاکستانی عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مسعود اظہر کی حفاظت کے ذریعے پاکستان کے کون سے قومی مفاد اور سلامتی کا تحفظ کیا جا رہا ہے؟

یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے ملک کے دورے پر آئے ہوئے ’برادر ایم بی ایس‘ کے بارے میں ’بدکلامی‘ کی اجازت نہیں دینا چاہتی یا وہ سمجھتی ہے کہ اس موقع پر ترکی کے ان الزامات کو نہ دہرایا جائے کہ گزشتہ سال استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں سعودی شاہی خاندان کے ناقد صحافی جمال خشوگی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث تھے۔  لیکن پاکستانی لیڈر یہ تو بتا سکتے ہیں کہ وہ اس معزز مہمان کی سفارتی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ہیجان خیزی ختم کرنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری پر بڑے بڑے اعداد لگانے سے آنکھیں ضرور چندھیا جاتی ہیں لیکن سرمایہ کاری کے یہ وعدے یا جائزہ لینے کے معاہدے بھی صرف اسی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں جب ملک میں امن ہوگا اور سرحدوں پر کھڑی دشمن کی فوج ہر وقت حملہ کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ اسی طرح عالمی فورمز میں پاکستان کو مسلسل یہ یقین نہیں دلوانا پڑے گا کہ وہ دہشت گردوں کا دوست نہیں، دشمن ہے۔

عمران خان نے جب اسلام آباد پہنچنے پر ایم بی ایس کو گلے لگایا تو انہیں شہزادے سے یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ بلوچستان کی سرمایہ کاری کے بارے میں بلوچستان اسمبلی میں بے چینی موجود ہے۔  حکومت اس سرمایہ کاری کو اس صوبے کے عوام کے لئے سود مند بنانا چاہتی ہے لہذا اس منصوبہ کے بلو پرنٹ میں یہ جائزہ بھی پیش کیا جائے کہ اس صوبے کے عوام کو اس سرمایہ کاری سے کیا فائدہ ہوگا، جس کی 35 ہزار ایکڑ زمین پر آئل ریفائننری لگائی جا رہی ہے۔  عمران خان کو شہزادہ محمد کو ایرانی جنرل محمد علی جعفری کی یہ دھمکی بھی سنا دینی چاہیے کہ ’اگر پاکستان نے ایران کے پاسداران انقلاب پر حملوں کے ذمہ داروں کو سزا نہ دی تو ایران اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے خود پاکستان کے اندر ان پر حملہ کرے گا‘ ۔

بھارت بھی، بقول امریکہ، پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو یہ اس کا ’حق دفاع‘ ہو گا۔ سعودی عرب پر حملہ روکنے والی پاکستانی حکومت کو سعودی شہزادے سے مشاورت کرنی چاہیے کہ وہ دو ہمسایہ ملکوں کے ’حق دفاع‘ کا نشانہ بننے سے کیسے بچ سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali