عامر خاکوانی کو ظفر خان کاکا جواب دیتے ہیں….
حیرت کی بات کہ عامر ہاشم خاکوانی صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج ، ایجنسیاں قابل معافی نہیں کہ انہوں نے امریکہ کا ساتھ دے کر ، سی آئی اے کی جنگ لڑ کر لاکھوںافغان مروا دئیے۔ لیکن اس جنگ کے سرخیل ملا عمر کی موت پر انہوں نے ملا عمرکو ’مرد کوہستانی‘ لکھا تھا۔ انہوں ہی نے افغان طالبان کو فریڈم فائٹر لکھا تھا۔ خاکسار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کے خلاف بندوق اٹھانے والے کیسے فریڈم فائٹرز ہو گئے؟ امریکہ تو بہت بعد میں آیا۔ ان فرینڈم فائٹرز نے تو پچانوے میں افغانوں کے خلاف بندوق اٹھائی تھی اور بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ خاکوانی صاحب تواتر سے ٹی ٹی پی کو دہشت گرد لکھتے رہے ہیں کیونکہ وہ ریاست کے خلاف بغاوت کو ٹھیک نہیں سمجھتے (ان کا موقف درست ہے) لیکن وہ افغان طالبان کی ریاست کے خلاف بغاوت کو جہاد کہتے ہیں؟ربانی دور کے طالبان جہاد کو ہمارے یہاں کمال سرد مہری سے یہ کہہ کر سند جواز بخشا جاتا ہے کہ افغانستان عدم استحکام کا شکار تھا۔ جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے تھے۔ پرانے مجاہدین اخلاقی برائیوں کا شکار ہو چکے تھے وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ بات صرف قندھار کے حصے تک ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ بات ایسے ہی تسلیم کی جائے جیسا کہا جا رہا ہے۔ تو کیا افغانستان اس وقت میں پاکستان کے موجودہ حالات سے زیادہ بد امنی کا شکار تھا؟
کیا آج کوئی دانشور ڈیرہ اسماعیل خان سے ژ وب تک اپنی گاڑی میں سفر کر سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے خاندان کے ساتھ درہ آدم خیل اپنی گاڑی میں جا سکتا ہے؟ حد یہ ہے کہ بلوچستان کے سرکاری عمارتوں سے قومی پرچم چودہ اگست کے دن خوف کی وجہ سے غائب ہوتا ہے۔ صرف کوئٹہ شہر میں گزشتہ تین برسوں سے ایف سی کی کاروان میں قومی پرچم کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ خضدار، وڈھ، تربت میں تو قومی پرچم لہرانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔کہا جاتا ہے کہ قندھار میں جنگی کمانڈر بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے۔ کیا قصور میںبچوں کے ساتھ زیادتی کر کے ان کی فلمیں نہیں بنائی گئیں؟
جب ایسا ہے تو کیا تحریک طالبان یا کسی اور مسلح تنظیم کو پاکستان میں جہاد کا حق دیا جاتا ہے؟
کیا تحریک طالبان پاکستان نے انہی دلائل کی بنیاد پر پاکستان میں جہاد شروع نہیں کیا تھا جو طالبان نے افغانستان میں کیا تھا؟ کیا کراچی کے انہی لوگوں نے ان کے جہاد کے حق میں فتوے جاری نہیں کیے جنہوں نے افغان طالبان کے حق میں جاری کیے تھے؟
آپ کے اصول نرالے ہیں۔ آپ کے لیے وہ فریڈم فائٹرز ہیں اور یہ دہشت گرد…. ہم اس پر بھی خاموش رہ جاتے لیکن آپ اب بھی افغانستان میں طالبان کی آمد کے خواب دیکھ رہے ہیں۔اب جب افغانستان میں ایک جمہوری حکومت ہے اور امریکہ نکلنے والا ہے آپ اپنے کالم ’ پہلی کامیابی‘میں رقم طراز ہیں….
”جن دنوں داعش نے عراق میں تہلکہ مچا رکھا تھا، ایک دو محفلوں میں افغانستان کے حوالے سے بات ہوئی تو میں نے رائے ظاہر کی کہ افغانستان میں بھی موصل جیسا منظر دہرایا جائے گا۔جب امریکی فوجوں کا انخلا شروع ہو گا اور سیکیورٹی افغان فوج کے ہاتھ آئے گی تو طالبان اسی انداز میں مختلف شہروں پر حملے کریں گے اور افغان آرمی بھی عراقی آرمی کے انداز میں ’شاندار پسپائی‘ اختیار کرے گی۔’شاندار پسپائی‘ کی اصطلاح کو طنزیہ نہ سمجھاجائے“
گویا ایک جمہوری حکومت کے خلاف بندوق اٹھانے کو آپ افغانستان میں تو جائز سمجھتے ہیں مگر یہ پاکستان میں آکر کفر اور دہشت گردی بن جاتی ہے۔ پھر آپ یہ بھی لکھ لیتے ہیں کہ ”کہ پاکستانی فوج ، ایجنسیاں،قابل معافی نہیں کہ انہوں نے امریکہ کا ساتھ دے کر ، سی آئی اے کی جنگ لڑ کر لاکھوں افغان مروا دئیے“۔
اس بات پر البتہ حیرت ظاہر نہیں کر سکتے کہ باچا خان کو کمیونسٹ کہنے جیسی صریح دروغ گوئی پر آپ فیض اللہ خان کو داد بھی دے رہے ہیں ۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
- تالہ ۔ ۔ ۔ بندی - 07/07/2023
- کہانی، ناٹک اور تسلط کا جبر - 20/02/2023
- معطل آدمی کے خواب - 19/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).