اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری: احتساب یا صوبائی خود مختاری پر حملہ


اسلام آباد میں قومی احتساب بیورو کے ہاتھوں سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری اور احتساب عدالت کی طرف سے فوری طور پر تین روز کا ریمانڈ دینے کی کارروائی سے بنیادی نوعیت کے سوال سامنے آئے ہیں۔ اس معاملہ میں اگر ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے معاملہ کو درست کرنے اور نیب کے اختیارات، طریقہ کار اور ہتھکنڈوں کے بارے میں اقدامات سے گریز کیا گیا تو اس کے ملک میں جمہوریت، سیاسی ماحول اور انسانی حقوق کی صورت حال پر منفی اور افسوسناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

 نیب کا یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پلوامہ سانحہ کے بعد بھارتی لیڈروں کی طرف سے تند و تیز زبان استعمال کی جا رہی ہے، انڈین میڈیا تسلسل سے پاکستان کے خلاف فوجی کارورائی کا ’مطالبہ ‘ کر رہا ہے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس واقعہ کی تحقیقات کروانے کی پیش کش کو یہ کہہ کر مسترد کرچکی ہیں کہ ’عمران خان فوج کی زبان بول رہے ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان ناقابل اعتبار اور دہشت گردی کا محور ہے‘۔ اس صورت میں پاکستان میں سیاسی تفریق کی بجائے قومی قیادت میں اتفاق رائے اور صوبائی تفرقہ کی بجائے پوری قوم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی غیر معمولی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

آغا سراج درانی کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا ہے۔ نیب کے اعلامیہ کے مطابق ان کے خلاف آمدن سے بڑھ کر اثاثے بنانے کا الزام عائد ہے۔ اس کے علاوہ متعدد دوسرے الزامات میں بھی ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ نیب کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو کراچی یا سندھ میں گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا تھا کیوں کہ وہاں ان کی سیکورٹی ٹیم ان کے ہمراہ ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا نیب کی ٹیم کے ساتھ تصادم کا اندیشہ تھا۔ اس لئے نیب کراچی نے اپنے ہیڈ آفس کے تعاون سے آغا سراج درانی کو اس وقت گرفتار کرنے کا فیصلہ جب وہ اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔

نیب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بااثر لوگوں کو گرفتار کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بصورت دیگر وہ سرکاری افسروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتے ہیں۔ گو کہ اس وقت  ملک کے دوسرے بڑے صوبے کی اسمبلی کے اسپیکر اور پیپلز پارٹی کے ممتاز لیڈر کی گرفتاری کا معاملہ زیر بحث ہے لیکن نیب کی یہ دلیل تو کسی عام شہری کے بارے میں بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی شخص کو صرف اس لئے گرفتار کر رہا ہے تاکہ سرکاری افسروں پر اثر و رسوخ استعمال نہ ہوسکے۔ کیا ایسی صورت میں بہتر نہیں ہو گا کہ عام شہری کے بنیادی حقوق پامال کرنے کی بجائے نیب ان سرکاری افسروں کو گرفتار کرے جن کے بارے میں اسے ’شبہ‘ ہے کہ وہ اثر قبول کرتے ہیں یا ’بدعنوان‘ سیاست دانوں کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ نیب کی یہ دلیل مسترد کئے جانے کے قابل ہے۔ اسے کسی بھی فرد کو گرفتار کرنے سے پہلے اس کے خلاف مناسب شواہد اور ثبوت جمع کر لینے چاہئیں تاکہ بعد میں عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران اسے شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ملک کی موجودہ حکومت نے بدعنوانی کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کیا ہے لیکن اس سیاسی مؤقف کو ملک میں بدعنوانی کے خلاف اقدامات کرنے اور احتساب کا متوازن اور شفاف نظام قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے کی بجائے،اسے ایک ایسے سیاسی نعرہ کی حیثیت دی گئی ہے جو تمام مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو ’چور اور بدعنوان ‘ قرار دیتا ہے۔ بدعنوانی اور سیاسی لیڈروں پر الزامات کے اسی ماحول میں قومی احتساب بیورو نے اہم سیاست دانوں کے خلاف کارورائی کرنے کا اقدام کیا ہے۔ حالانکہ طویل عرصہ حراست میں رکھنے کے بعد جب متعلقہ لوگوں کے خلاف مقدمہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ انتہائی کمزور اور نقائص سے پر ہوتا ہے۔ اس صورت میں احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی ایسا میکنزم بھی وضع ہونا چاہئے کہ نیب کے اقدامات کا جائزہ لیا جاسکے اور اس ادارے کو شہرت اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے۔

اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے سیاست دانوں کی بدعنوانی کے بارے میں جو سیاسی مقدمہ قائم کیا ہے، اس کے ہوتے نیب کو کسی خوف اور ضرورت کے بغیر سیاسی لیڈروں کو گرفتار کرنے کا آسان راستہ مل گیا ہے۔ اس طرح ایک تو حکومت وقت کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور دوسرے عام لوگوں کو تاثر ملتا ہے کہ نیب کسی خوف کے بغیر اپنا کام سرانجام دے رہا ہے۔ جب تک نیب کے قائم کئے ہوئے مقدمات کا عدالتوں کے فیصلوں اور ریمارکس کا جائزہ نہ لیا جائے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ نیب بدعنوانی ہی کے خلاف سرگرم ہے اور اس ادارے کو برسراقتدار جماعت اور ملک میں فیصلہ کرنے والی قوتیں سیاسی انتقام یا مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر رہیں۔

 نیب کے ماضی کی تاریخ اس بات کے وافر ثبوت فراہم کرتی ہے کہ کس طرح اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ ادارہ بدعنوانی کو روکنے اور قومی وسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے ایک خاص طرح کے سیاسی نعرے کو فروغ دینے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے لیڈر واشگاف الفاظ میں مخالف سیاسی لیڈروں کو لٹیرا قرار دیتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ان تحقیقات یا مقدمات کا حوالہ دیا جاتا ہے جو نیب نے شروع کئے ہیں یا ان گرفتاریوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو نیب بڑی سرگرمی سے سرانجام دے رہی ہے۔ حالانکہ ملک کا کوئی بھی شخص خواہ وہ وزیر اعظم کے عہدہ پر ہی کیوں فائز نہ ہو کسی بھی ایسے شخص کو بدعنوان کہنے کا مجاز نہیں ہو سکتا جس کے خلاف مقدمات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہوں یا تحقیقات کا آغاز ہی کیا گیا ہو۔

ان حالات میں عمران خان اینڈ کمپنی کے بیانات کا مقصد صرف سیاسی ہوتا ہے۔ نیب ان بیانات اور الزامات پر خاموشی اختیار کر کے اس بیانیہ کی تصدیق کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اگر نیب واقعی خود مختار ادارہ ہے اور اس کے تمام اقدامات صرف قانونی دائرہ کار میں صرف بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ہیں تو چئیر مین نیب کا فرض تھا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو نیب کے معاملات میں بیان بازی کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے سے روکتے۔

اس کے برعکس نیب کے موجودہ چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد عمران خان سے ملاقات کی تھی اور بدعنوانی کے خلاف حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ کیا نیب چئیر مین نہیں جانتے تھے کہ تحریک انصاف کے لیڈروں کے بیانات بدعنوانی سے زیادہ سیاسی ماحول بنانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ یوں بھی ایک آئینی ادارے کے چئیر مین کی وزیر اعظم اسے دو بدو ملاقات کا کون سا اخلاقی جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ اس سے چئیر مین اور اس ادارے کی کم تر اخلاقی سطح کا اظہار ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں جب پشاور میں آثار قدیمہ اور عجائب گھروں کے ڈائریکٹر کی گرفتاری پر ٹویٹ کیا تو چئیرمین نیب نے اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے یہ معاملہ ہیڈ کوارٹر طلب کرنے کا حکم دیا۔ چئیر مین نیب کے اس اقدام سے حکومت کا سیاسی اثر قبول کرنے کے علاوہ یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ نیب کے پورے ڈھانچے کی اصلاح و تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کے افسر خود نمائی کے شوق میں ناانصافی کرنے اور ناجائز فیصلے کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ اور نیب حکام صرف وزیر اعظم کے توجہ دلانے پر ہی حرکت میں آتے ہیں۔

آغا سراج درانی کی گرفتاری سے البتہ یہ اہم سوال بھی سامنے آیا ہے کہ نیب کو کس حد تک قومی معاملات، سیاست اور بین الصوبائی تعلقات پر اثر انداز ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ قوم کو جس وقت یک جہتی اور سیاسی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے، نیب کا یہ اقدام غیر ضروری بحث شروع کرنے کا سبب بنے گا اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ کیا قومی ادارے صوبائی اختیارات پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کسی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرادری کی اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ گرفتاری ملک میں جمہوریت کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر سیاست دانوں کو احتساب کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے تو احتساب کے ادارے کو بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا طرز عمل متوازن اور قانون کے مطابق ہے۔ اور اس کا مقصد سنسنی پیدا کرنا یا کسی خاص حکومت یا گروہ کی خوشنودی حاصل کرنا نہیں ہے۔

نیب کو یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی اہم شخصیت یا عوامی نمائیندے کی گرفتاری کی صورت میں اس کی طرف سے ذمہ دارانہ بیان دیا جائے اور الفاظ کا چناؤ مناسب ہو۔ آمدن سے بڑھ کر اثاثے بنانے کا الزام پاکستان کے بیشتر لوگوں پر عائد کیا جا سکتا ہے لیکن نیب کا ہاتھ صرف اپوزیشن کے سیاسی لیڈروں تک ہی پہنچ رہا ہے۔ آغا درانی کی گرفتاری کی پریس ریلیز میں تواتر سے ان کے لئے ’ملزم‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لغوی لحاظ سے اس لفظ کا استعمال درست ہونے کے باوجود سیاسی اور اخلاقی حوالے سے یہ نامناسب زبان ہے۔ سراج درانی سندھ اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور جب تک ان کے خلاف کوئی الزام کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت نہ ہوجائے، ان کی تکریم واجب ہے۔

تحریک انصاف نے فوری طور پر آغا سراج درانی کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم اسے صرف اسی صورت میں جائز کہا جاسکتا ہے اگر ملک میں احتساب کی روایت کسی سیاسی امتیاز کے بغیر استوار کی جا سکے۔ اسی طرح وزیر اطلاعات کا یہ اعلان بھی کافی نہیں ہے کہ حکومت کا نیب کے اس فعل سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کو احتساب کے بارے میں اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے نیب کی تطہیر کرنے اور احتساب قوانین پر مناسب نظر ثانی کا اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali