پاکستان کے مسلم دوست کیوں مودی کے اسیر ہو رہے ہیں – حسین حقانی


\"khalduneکنور خلدون شاہد: اگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اتنے خراب کبھی بھی نہیں رہے جتنے کہ اب ہیں تو پھر کیسے واشنگٹن کا خیال ہے کہ افغانستان کے معاملے پر اب اسلام آباد اس کی لائن پر چلے گا جبکہ پرانا ریکارڈ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے؟

حقانی: ہاں تعلقات تو بہت خراب ہیں مگر چونکہ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے سو وہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ میں کیا کیا ہوا تھا۔ اپنی کتاب \”Magnificent Delusions\” میں میں نے بہتر تعلقات کے ادوار (1950، 1980 اور 2000 کی دہائیاں) اور خراب تعلقات کے ادوار یعنی 1960 کی دہائی کا وسط اور 1990 کی دہائی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ واشنگٹن نے ہمیشہ امید رکھی ہے کہ درست ترغیب یعنی امداد، آلات اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی آفر سے اسلام آباد بلکہ خصوصاََ راولپنڈی افغانستان کی طرف اپنی پالیسی بدل لے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور اب واشنگٹن ڈی سی میں یہ امید دم توڑ گئی ہے کہ آیا اسلام آباد امریکہ کی پسند کی پالیسی اپنانا چاہتا بھی ہے یا وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔

خلدون: آپ اسلام آباد کے خلاف اشرف غنی کے غصہ کو کیسے دیکھتے ہیں جو انہوں نے اس سال اور پچھلے سال کابل میں دہشت گرد حملوں کے بعد ظاہر کی ہے؟ ایسی حالت میں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف اسلامسٹ عسکریت پسندوں کی حمایت کے الزام لگا رہے ہیں اور جب افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی رک گئے ہیں تو ایسی تو کیا کوئی امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مستقبل قریب میں بہتر ہو سکیں؟

حسین حقانی: اشرف غنی جب حکومت میں آئے تو پاکستان کے ساتھ تعلقات نچلی ترین سطح پر تھے اور دونوں حکومتوں کے درمیان بات\"husain چیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ غنی کا خیال تھا کہ پاکستان کی سول اور ملٹری لیڈرشپ کی جانب مثبت پیش قدمی اور پاکستان سے تعلقات میں بہتری کی آفر نیز ہندوستان سے تعلقات میں کمی اسلام آباد کو رام کر سکے گی اور اس سے پاکستان کو افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کی حوصلہ افزائی ملے گی۔ غنی اور امریکہ کا یہ بھی خیال تھا کہ اس سے پاکستان افغان طالبان کو امن عمل میں شامل ہونے پر بھی راضی کر لیں گے۔

مگر اس کے باوجود کابل میں دہشت گرد حملوں کا بڑھنا، افغان طالبان کے دو سربراہوں  کا پاکستان میں ملنا اور افغانستان کے خلاف لڑنے والے جہادیوں کے لئے محفوظ پناگاہوں کا بدستور موجود رہنا اشرف غنی کے حالیہ غصہ کا باعث ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تب ہی بہتر ہوسکتے ہیں جب پاکستان تمام جہادی گروہوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنا لے چاہے وہ گروہ پاکستان پر حملے کر رہا ہو یا بیرون ملک۔ جب ایسا ہوگا تب اول تو پاکستانی بھی محفوظ ہوں گے اور دوسرا پاکستان کے تعلقات نہ صرف افغانستان بلکہ اپنے تمام ہمسائیوں سمیت امریکہ سے بھی بہتر ہوجائیں گے۔

خلدون: پاکستان اور ہندوستان ایسا کیا کریں کہ یہ سفارتی دشمنی ختم ہوسکے جبکہ نواز اور مودی حکومتیں واقعتاََ ایک دوسرے سے اختلافات ختم کرنے کے لئے پرخلوص ہیں؟

حسین حقانی: ہندوستان اور پاکستان کو دوست ہونا چاہئے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ 5000 سال طویل تاریخ رکھتے ہیں جبکہ تعلقات \"husainمیں دشمنی اور تلخی تو محض ستر سال پرانی ہے۔ میری اگلی کتاب India v/s Pakistan میں مَیں نے یہ بحث کی ہے کہ تقسیم ہند کا بوجھل ورثہ، قومی تشخص کا پروان چڑھنا، دہشت گردی کے خطرات، نیوکلیائی ہتھیار اور شدت پسند ہوتے سماج وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج ہم یہاں کھڑے ہیں۔

جیسے مودی اور نواز پرخلوص نیت سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات مٹانا چاہتے ہیں ویسے ہی نہرو اور لیاقت پچاس کی دہائی میں چاہتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی بھی ستر کی دہائی میں چاہتے تھے، بے نظیر اور راجیو گاندھی اسی کی دہائی میں چاہتے تھے، نواز اور واجپائی 1999 میں اور گیلانی-زرداری اور منموہن سنگھ 2008 میں چاہتے تھے۔

دونوں ملکوں کے رہنما پچھلے ستر سال میں کوئی 55 دفعہ مل چکے ہیں مگر ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ اگر واقعی تعلقات میں تبدیلی چاہتے ہیں تو دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خیالات میں تبدیلی لانی ہوگی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہندوستان کو دشمن سمجھنا چھوڑنا ہوگا اور ہمسایہ سمجھنا ہوگا جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہوں اور اپنا دفاع قائم رکھتے ہوئے اسے ہندوستان کے ساتھ تجارتی، معاشی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو اپنا سب سے بڑا جنوبی ایشیائی ہمسایہ سمجھنا ہوگا اور بجائے اس کے کہ وہ اس سے حقارت برتے اسے کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لئے اس کے ساتھ احترام برتنا ہوگا۔ اختلافات ختم کرنا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

خلدون: کیا افغانستان کی طرح ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی پاکستان بھارت کی دوربین سے دیکھ کر منفی طور پر متاثر کرے گا؟

حسین حقانی: پاکستان کی ایران کی جانب پالیسی میں توازن رہا ہے جس میں پاکستان ایران کے ساتھ اہم مسلمان ہمسایہ کی طرح برتاؤ کرتا \"Husainہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ اسلام آباد نے اپنے آپ کو ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار کا حصہ بننے دیا۔

برسوں سے سعودی فنڈنگ اور شدت پسند اسلامسٹ گروہوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کو ایران مخالف گروہوں کو استعمال میں لانے دی جو بلوچستان سے آپریٹ کر رہے تھے۔ حالیہ برسوں میں اس سے وقفے وقفے سے ایران اور پاکستان کی سرحد تناؤ اور کبھی فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں۔ ایسا ماضی میں بہت کم ہوا تھا۔

ایران کے ہندوستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں چاہے شاہ کا زمانہ ہو یا اسلامی انقلاب کا۔ خطے میں تیل اور گیس کے بڑے سپلائر کے طور پر ایران کے لیے انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستان کو دوسرے ملکوں سے ایسی امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئے کہ وہ ہندوستان سے صرف اس لئے منہ موڑ لیں کہ پاکستان کی اس سے لڑائی ہے۔

اگرچہ اب ایران اس بات میں کامیاب ہوگیا ہے کہ وہ بیک وقت پاکستان اور ہندوستان سے اچھے تعلقات رکھے ہوئے ہیں مگر یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی اگر پاکستان نے ایران کو ہندوستان کی دوربین سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسی صورت میں مجھے ڈر ہے کہ ایران ہندوستان کا انتخاب کرے گا۔

خلدون: آپ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اگلے دس سال میں کیسے دیکھ رہے ہیں جب ایران مغرب (اور ہندوستان) کے قریب \"Husain_Haqqaniتر ہوتا جا رہا ہے؟ کیا پاکستان کی سعودی عرب دہشت گردی مخالف اتحاد میں شمولیت پاکستان میں سعودی پیسوں سے جاری فرقہ واریت کو بڑھاوا تو نہیں دے گی؟

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات علامتی (حرمین شریفین کے ساتھ قریبی تعلقات)، نظریاتی (پاکستان اپنے آپ کو مشرق وسطی کے ایک مسلمان ملک کی طرح دیکھتا ہے جس کے امت سے قریبی تعلقات ہیں) اور معاشی (پاکستان تیل و گیس، وقفے وقفے سے فوری قرضوں اور ترسیلات زر پر انحصار کرتا ہے) ہیں۔ ستر کی دہائی سے پاکستان نے سعودی عرب اور گلف کے ملکوں سے عسکری روابط قائم کئے ہیں جن میں انہیں عسکری مشیر، فوجی اور گلف کی افواج کو ٹریننگ فراہم کرنا شامل ہے۔ خلیج کی جنگ کے دوران پاکستان نے سعودیہ اور عراق کی حمایت کی۔

حالیہ برسوں میں ملک میں جاری فرقہ واریت میں اضافے کے بعد پاکستان کے وہابی ازم کے خطرات کے خلاف خدشات بہت بڑھ گئے ہیں اور اسی لئے خلیج میں افواج بھیجنے میں پس و پیش کی جا رہی ہے۔ مگر پاکستان سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اسی لئے شروعات میں عسکری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کے بعد پاکستان نے اس میں شمولیت کی حامی بھری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی تنازعات میں پاکستان جس قدر زیادہ فریق بنے گا اتنا ہی گھر میں اس کا منفی اثر پڑے گا۔ پاکستان کو اس \"husain-haqqani_10\"الجھن کا حل ڈھونڈنا پڑے گا کہ وہ ایسی صورت حال سے سعودیہ اور خلیج کے عرب ممالک جنہوں نے پاکستان کے لئے بہت کچھ  کیا ہے، انہیں ناراض کئے بغیر بچ سکے۔

سرحدوں پر کشیدگی سے بچے رہنا اس بات سے بہت مختلف ہے کہ سمندر پار آپ کے دوست اس بات کو محسوس نہ کریں کہ آپ ان کی سلامتی کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حمایت کے وعدے کی بنا پر امداد وصول کرنا ہمیں پابند کر دیتا ہے جسے وقت آنے پر اپنی مرضی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

خلدون: بنگلہ دیش اور پاکستان اس باہمی جنون کا کیا کریں جو ان کے تعلقات میں در آیا ہے؟

حسین حقانی: یہ باہمی طور پر جنون یا غصہ تب ہی کم ہوسکتا ہے جب یہ دونوں ایک ٹھنڈی سانس لیں اور ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔

پاکستان کو اپنی تاریخ پڑھنی ہوگی اور اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ہماری اگلی نسل بھی 1971 کی اصل کہانی پڑھے نہ کہ وہ سفید جھوٹ پر مبنی قصے جو پاکستان کے اکثر اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔

سابقہ آرمی چیف مشرف نے جو ہوا اس پر معافی مانگ کر اس بات کا آغاز تو کیا تھا۔ ہمیں اسے آگے بڑھانا ہوگا اور بنگلہ دیش سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔

بنگلہ دیش کو بھی اپنا ہاتھ ان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے آگے بڑھانا ہوگا۔ ہم ان سے جنوبی افریقہ جیسے سچائی اور مفاہمت کے عمل کو \"husain-haqqani-zardari-007\"شروع کرنے کی بات کر سکتے تھے۔ مگر ہم نے تاریخ پر سفیدی پھیرنے کو ترجیح دی یوں ظاہر کرتے ہوئے جیسے کہ کوئی جنگی جرم اور نا انصافی ہوئی ہی نہیں تھی۔

خلدون: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان نے اقتصادی راہداری کے تمام انڈے چینی ٹوکری میں رکھ دئے ہیں۔ (یعنی اپنا تمام تر انحصار چین پر کر دیا ہے- مترجم)

حسین حقانی: مختصراََ کہا جائے تو، ہاں۔ ہم ہمیشہ ہی ایسے دیومالائی خیالات میں مبتلا رہے ہیں کہ کوئی سپر پاور اتحادی باہر سے آکر ہمارے مسائل حل کر دے گا، ہماری معیشت ٹھیک کر دے گا اور ہماری فوج کو بھارت کے مقابل کھڑا کرنے کے قابل بنا دے گا۔ پہلے ہم امریکہ کی طرف دیکھتے تھے مگر اس نے ایسا کچھ نہ کیا جیسے کہ ہم امید لگائے بیٹھے تھے۔ تب ہم نے چین کی طرف اپنا رخ موڑ لیا اور ہم مسلسل یہ سمجھتے ہیں کہ چین ہمارے تمام مسائل حل کر دے گا۔

چین جب کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو ایثار کی نیت یا ترقی بخشنے کے لئے نہیں کرتا جیسے کہ امریکہ یا یورپی یونین کرتے ہیں بلکہ وہ صرف اس وجہ سے سرمایہ کاری کرتا ہے کہ چینی کمپنیوں کو منافع ہو۔

اقتصادی راہداری ان بہت سی راہداریوں کا ایک حصہ ہے جو بیجنگ کے ایک بیلٹ ایک روڈ کے منصوبے کے تحت بنیں گی۔ جنوبی ایشیا میں ایسی ہی ایک راہداری بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان اور میانمار کی ہے۔

چین نے اکثر سرمایہ کاری کے بڑے بڑے وعدے کئے ہیں مگر وہ کم ہی پورے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور 2005 میں انڈو نیشیا میں 24 ارب\"Husain-Haqqani_2098464b\" ڈالر کی سرمایہ کاری کے پلان کا اعلان کرنے کے باوجود آج ایک دہائی بعد چین کی جانب سے کل سرمایہ کاری 1.8 ارب ڈالر ہی ہے۔

اگر پاکستان اپنی معیشت کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اسے ٹیکسٹائل کی صنعت پر اپنا انحصار کم کر کے آگے بڑھنا ہوگا، اپنی کل قومی پیداوار کے مقابل ٹیکس کا حصہ بڑھانا ہوگا، توانائی بحران کو حل کرنا ہوگا اور سیاسی استحکام لانا ہوگا۔ اسی سے طویل البنیاد سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو کسی جنگجو قوم سے بہتر درجہ دینا  ہوگا جو کسی تزویراتی طور پر اہم محل وقوع پر بیٹھی ہوئی ہے اور بڑی طاقتوں سے اپنے اہم محل وقوع کا خراج وصول کر رہی ہے۔

خلدون: کیا پاکستان کے روس کے ساتھ دفاعی اور توانائی پر مبنی تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ یہ خوش فہمی رکھی جا سکے کہ ممکنہ طور پر کوئی چین، روس اور پاکستان پر مبنی اتحاد بن سکتا ہے؟

حسین حقانی: پاکستان کے روس کے ساتھ دفاعی اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر مبنی تعلقات گزشتہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں اور یہ اور بھی بہتر ہوجائیں گے کیوں کہ روس یورپین یونین اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے مزید منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ مزید برآں ہندوستان جو روس کی سب سے بڑی ہتھیاروں کی منڈی تھی اب زیادہ سے زیادہ ہتھیار مغرب سے خرید رہا ہے تو روس کو مزید خریدار چاہئے ہیں۔ مگر روس اپنے ہتھیار نقد پر بیچتا ہے اور ہمارے پاس ہر وقت وافر مقدار میں نقدی نہیں ہوتی۔

یہ خیال کہ کوئی روس چین اور پاکستان پر مبنی اتحاد بن سکتا ہے ابھی تو محض تمنا ہی ہے۔ روس اب بھی ہندوستان کا بڑا ہتھیاروں کا \"hussainسپلائر ہے اور وہ نئی دہلی کو ایک خاص حد سے زیادہ ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ اسی لئے صدر پیوتن نے ابھی تک پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور روسی سفیر مسلسل یہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ تب آئیں گے جب تعلقات میں اور زیادہ امکانات ہوں گے۔

چین بھی ہندوستان کے ساتھ سرحدی جھگڑا ہونے کے باوجود ہندوستان کو امریکہ کے بہت زیادہ قریب نہیں ہونے دینا چاہتا۔ اسی لئے وہ توازن کا کھیل کھیلے گا۔ چین کی ہندوستان کے ساتھ تجارت 2013 میں 65 ارب ڈالر تھی، یہ پاکستان کے ساتھ چین کی تجارت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ 2014 میں ایک پیو ریسرچ سنٹر کے بین الاقوامی رویوں کے سروے کے مطابق 78 فیصد پاکستانی چین کو دوستی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ چین میں محض 30 فیصد افراد پاکستان کو دوست دیکھتے ہیں، چین میں اتنے ہی فیصد لوگ ہندوستان کو بھی دوست دیکھتے ہیں۔

خلدون: آپ اسلام آباد کا وسطی ایشیا کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے محور بنانے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال سے تاپی (تاجکستان، افغانستان اور پاکستان) اور آئی پی (ایران اور پاکستان) پائپ لائنیں ایک وقت میں رہ سکتی ہیں؟

نوے کی دہائی سے پاکستان اپنے آپ کو وسطی ایشیا کے لئے ایک شاہراہ کے طور پر دیکھ رہا ہے، ایسا اس لئے تھا کہ پاکستان وسطی ایشیا کے خطے کے توانائی کے وسائل تک رسائی حاصل کر سکے اور اس لئے بھی کہ دوسرے ممالک کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی کے لئے پاکستان سے گزر کر جانا پڑے۔ مگر ایسا بدقسمتی سے نہیں ہوسکا کیوں کہ پائپ لائنیں اور اقتصادی راہداریاں جنگ زدہ علاقوں میں پھل پھول نہیں سکتیں۔

خطے میں دو بڑی معیشتیں ہیں، ایک چین اور دوسرا ہندوستان۔ چین کو وسطی ایشیا تک براہ راست رسائی حاصل ہے اور ہندوستان کو پاکستان\"hussain نے اپنے علاقے سے گزر کر وسطی ایشیا تک رسائی کی اجازت نہیں دی۔ اسی لئے ہندوستان ایران کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دونوں تاپی اور آئی پی آئی (ایران، پاکستان اور ہندوستان) پائپ لائنیں ایک وقت میں بن سکتی ہیں مگر یہ تب ہی ہے کہ پاکستان ہندوستان کو اپنے علاقے سے گزر کر بڑے پیمانے پر تجارت کی اجازت دے دیتا ہے۔ ان دونوں پائپ لائنوں کے لئے بڑی منڈی ہندوستان ہے اور پاکستان کو واقعی میں فائدہ ہوگا اگر ہم تجارتی راہداری کی اجازت دے دیتے ہیں کیوں کہ پاکستان کاروبار اور تجارت اور توانائی کی گزرگاہ بن جائے گا، اس سے آمدنی میں تو اضافہ ہوگا ہی ہمیں ہندوستان سے بات چیت میں بہتر ساکھ  بھی حاصل ہو گی۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات تو پوری ہوں گی ہی اسے بیرونی سرمایہ کاری بھی حاصل ہوگی۔ ہماری یہ حکمت عملی کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہم ہندوستان کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے ہمیں اس راہ پر چلنے نہیں دیتی۔

خلدون: آپ موجودہ ن لیگ کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا موازنہ پیپلز پارٹی کی خارجہ پالیسی سے کیسے کرتے ہیں؟

دونوں سویلین حکومتوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سے اپنی گرفت کمزور نہیں کرنا چاہتی اور اس کے لئے رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہے یا ملک میں ایسے بحران پیدا کرتی رہتی ہے جس سے اصل تبدیلی نہیں لائی جا پاتی۔ دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی نئے خیالات کو رد کرنے کی صلاحیت کو چیلنج کرنے میں ناکام رہی ہیں کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا اور مذہبی دائیں طبقے کے ذریعے \’بک گئے\’ کا شور ڈلوا دیتے ہیں۔\"hussain

خلدون: پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مودی کے سعودی عرب اور ایران کے حالیہ دورے اور ایران اور افغانستان کے ساتھ معاہدے کیسے اثرات چھوڑیں گے؟

حسین حقانی: مودی کے بعد ہندوستان نے ہمسایوں اور دوسرے بہت سے ممالک سے اپنے تعلقات بہتر کئے ہیں۔ ہندوستان کے اب نہ صرف ایران بلکہ سعودیہ اور خلیج کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

اب سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان نہ صرف توانائی اور معاشی تعلقات گہرے ہوئے ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں ریاض نے جہادی دہشت گردوں (اکثر جن کا تعلق پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروہوں سے ہوتا ہے) کو ہندوستان کے حوالے بھی کیا ہے۔

ایران ہندوستان کا تیل اور گیس کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور اب تو ہندوستان چابہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھی ایران کی مدد کر رہا ہے جو خطے میں گوادر بندرگاہ کی حریف ہے۔ ایسا اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اس سے افغانستان تک رسائی حاصل کی جائے۔

افغنستان اور ہندوستان نے کچھ برس پہلے اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ ہندوستان اس وقت خطے میں افغانستان کی سب سے زیادہ امداد کر رہا ہے جو 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور ہندوستان نے افغانستان کو ہیلی کاپٹر بھی دئے ہیں۔

پاکستان کو ہندوستان کے ہمارے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات کو پاکستان کی مخالفت پر مبنی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمیں اپنی حکمت عملی تبدیل \"hussaiکرنی چاہئے اور اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہئے۔

یہ خیال کہ مسلمان ممالک اور پاکستان کے مسلم جنوبی ایشیائی ہمسائیوں کو ہندو اکثریت پر مبنی ہندوستان کے مقابل اسلامی پاکستان کی مدد کرنی چاہئے نہ پچاس کی دہائی میں پورا ہوا اور نہ ہی اب یہ پورا ہوسکے گا۔ ممالک اپنے تعلقات ریاستی مفاد کی بنا پر طے کرتے ہیں نہ کہ کسی نظریہ کے مطابق۔ ہمیں اپنے آپ کو دوسروں کے مفاد کے مطابق بنانا ہوگا، وہ بھی مثبت طور پر۔

خلدون: آخر میں کیا آپ مستقبل قریب میں خارجہ پالیسی پر اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرفت کمزور ہوتے دیکھتے ہیں؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے بغیر ترقی پسند ہو سکتی ہے؟

حسین حقانی: اگر اس وقت دیکھا جائے تو میں اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی پر گرفت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں دیکھتا نہ ہی میں اس کے بین الاقوامی نقطہ نگاہ میں کوئی تبدیلی آتے دیکھتا ہوں۔

ہماری خارجہ پالیسی تب ہی ترقی پسند ہوسکتی ہے جب ہم ہندوستان کے متعلق جمود کو چھوڑ دیں، نظریات کی بجائے عملیت پسندی اور زمینی حقائق کو فیصلہ سازی کی بنیاد بنائیں۔ ہمیں شدت پسند اسلامسٹ جہادی گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی، جہادی گروہ اور ایسے تمام غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی تاکہ پاکستان کے شہریوں کے لئے اسے محفوظ بنایا جائے۔ ہمیں معاشی ترقی کی طرف دھیان دینا ہوگا۔ ابھی ہم ایسے انسان کی طرح ہیں جو تمام بدن کی بجائے صرف ہاتھوں کی ورزش کو ہی کافی جانتا ہو۔ ہمارا عسکری اور قومی سلامتی کا ہاتھ تو مضبوط ہے مگر ہماری معاشی ٹانگیں اور ثقافتی اور فکری دماغ، ہمارا دل اور انسانی ترقی کا دوران خون کا نظام بہت بری کارکردگی دکھا رہا ہے۔

_______________________

نیوز لائن میگزین کے لئے حسین حقانی کا یہ انٹرویو کنور خلدون شاہد نے لیا اور ہم سب کے لئے ملک عمید نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments