سونے کی چڑیا اور مغل حکمران


ایک دور تھا جب متحدہ ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان شروع دن سے ہی سونے کی چڑیا تھا یا اِسے باقاعدہ سونے کی چڑیا بنایا گیا تھا؟ کیا مغلوں سے پہلے بھی ہندوستان سونے کی چڑیا تھا؟ یا اسے سونے کی چڑیا بنانے میں دریائے آمو کے اُس پار سے آنے والے مغلوں کا بھی کوئی کردار تھا؟ آئیے! حقائق تک پہنچنے کے لئے دنیا کے نامور محققین اور مورخین کی کتابیں کھنگالتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر کارل جے شیمتھ کو ہی لے لیں، ڈاکٹر کارل امریکہ کی سب سے قدیم جامعہ ساو¿تھ ڈکوٹا یونیورسٹی میں علم تاریخ اور سیاسیات کے استاد، تاریخ دان اور محقق ہیں۔

ڈاکٹر کارل نے اپنی کتاب ”این اٹلس اینڈ سروے آف ساو¿تھ ایشین ہسٹری“ میں اُن لوگوں کو بالخصوص آڑھے ہاتھوں لیا ہے جو مغل شہنشاہوں اور مغلیہ سلطنت کا مذاق اُڑاتے نہیں تھکتے۔ اپنی کتاب کے صفحہ 45 پر ڈاکٹر کارل نے لکھا ہے کہ ”سترہویں صدی میں مغلوں کے دور میں ہندوستان کی معیشت دنیا کی ایک بڑی معیشت تھی، جس کی وجہ سے ہندوستان دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا“۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اینگس میڈیسن نے ”عالمی معیشت اور تاریخی اعداد و شمار“ کے نام سے اپنی تحقیقی کاوش کے صفحہ 256 پر دیے گئے جدول میں بتایا ہے کہ ”سترہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کی جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار چین کی منگ سلطنت کے بعد دوسرے نمبر پر آتی تھی، اس وقت دنیا کی مجموعی پیداوار کا 22 فیصد ہندوستان میں پیدا ہوتا تھا اور یہ مجموعی ملکی پیداوار سارے یورپ کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ تھی، سترہویں صدی کے اختتام تک یعنی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں یہ جی ڈی پی 24 فیصد سے زیادہ ہوچکی تھی جو کہ چین اور سارے یورپ کی مجموعی جی ڈی پی سے بھی زیادہ تھی“۔ یہی وہ دور تھا، جب اہل مغرب نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہنا شروع کیا اور پھر اچھے مستقبل کی تلاش میں باقاعدہ ہندوستان کا رخ کرلیا۔

”یورپ کیوں امیر ہوا اور ایشیا امیر کیوں نہ ہوسکا؟ “ کے نام سے بوسٹن کالج کے پروفیسر ڈاکٹر پراسنان پراتھا سراتھی لکھتے ہیں کہ ”مغل دور میں ہندوستان مینوفیکچرنگ کے شعبے میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتا تھا“۔ اِسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹرجیفری گیل ولیم سن نے ”اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان میں صنعتی انحطاط“ نامی اپنی تحقیقی کاوش میں بتایا ہے کہ ”مغل دور میں ساری دنیا کی 25 فیصد مینوفیکچرنگ صرف ہندوستان میں ہورہی تھیں“۔

ڈاکٹر اینگس میڈیسن نے ”عالمی معیشت اور تاریخی اعداد و شمار“ میں مزید لکھا کہ ”مغل دور میں ہندوستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا، اس کی مغلوں سے پہلے کے ہندوستان کی چار ہزار سالہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی! مغل دور کے پہلے دو سو سالہ دور میں ہونے والی ترقی ہندوستان کی معلوم تاریخ کی چار ہزار سالہ تاریخ کی ترقی سے سو گنا زیادہ تھی“۔ اسی طرح ڈچ مورخ لیکس ہیرما وین واس نے ”متحدہ ہندوستان کے ٹیکسٹائل برامدکنندگان اور گلوبلائزیشن“ کے عنوان سے اپنی کتاب میں مغل دور کی معیشت کو جدید صنعتی دور کی اساس قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے صنعتی انقلاب سے پہلے یورپ انقلاب کی بنیادیں استوار کرچکا تھا۔

اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان بلاشبہ سونے کی چڑیا بن چکا تھا، لیکن یہ سب کچھ ایسے ہی خودبخود ہی نہیں ہوگیا تھا، بلکہ اس کے لئے مغلوں نے مضبوط بنیادیں فراہم کردی تھیں۔ جنوبی کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد اور امور مغلیہ کے معروف عالم جان ایف رچرڈز نے اس کی تفصیل اپنی تحقیقی کاوش ”دی مغل ایمپائر“ میں رقم کی ہے، جان ایف رچرڈز کا کہنا ہے کہ ”ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کے لئے مغلوں نے تین بنیادی کام کیے، اول سلطنت کے اندر شاہراہوں کا جال بچھایا گیا، مختلف علاقوں کو آپس میں پختہ سڑکوں سے ایسے ملادیا گیا کہ دہلی سے سلطنت کے کسی بھی حصے تک محض دو دن پہنچا جاسکتا تھا، دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ملک میں ایک یکساں کرنسی رائج کی گئی اور سابق بیرونی حکمرانوں کی طرح درہم یا دینار رائج کرنے کی بجائے تجارت اور لین دین کے لئے مقامی کرنسی“ روپیہ ”کو رائج کیا گیا، اس سے روپے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ معیشت کومضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں بھی بہت مدد ملی، جبکہ تیسرا اور سب سے اہم کام سارے ہندوستان کو متحد کرنا تھا“۔

عالمگیر کے دور میں جب سارا ہندوستان تاج مغلیہ کے زیرنگیں آگیا تو ہندوستان حقیقت میں سونے کی چڑیا بن چکا تھا، جس کے بعد مغربی ممالک اپنی قسمت آزمانے کے لئے دھڑادھڑ ہندوستان پہنچنا شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر کارل جے شیمتھ نے بھی اپنی کتاب میں جان ایف رچرڈز کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر کارل رقم طراز ہیں کہ ”مغلوں نے دنیا کا پہلا پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ ہندوستان میں قائم کیا، جس کا مقصد ہندوستان میں سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کے منصوبے تیار کرنا، شاہراہیں تعمیر کرنا اور بعد از تعمیر اِن سڑکوں کی مکمل دیکھ بھال اور باقاعدگی سے مرمت کرنا تھا۔

مغل دور میں ہندوستان کا کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہیں تھا، جو سڑکوں کے ذریعے اپنے اردگرد کے شہروں اور قصبات کے ساتھ نہ ملا ہوا ہو، سڑکوں کی تعمیر کا مقصد تجارت میں آسانی، روانی اور تیزی لانا تھا ”۔ گرینڈ ٹرنک روڈ کا بنیادی منصوبہ بابر کے دور میں بنا، شیر شاہ سوری نے اس پر عمل کیا اور بعد میں مغلوں نے جی ٹی روڈ کو اس دور کی“ موٹروے ”کے مطابق بنایا، یہی حال ملک میں بنائی جانے والی دوسری سڑکوں اور شاہراہوں کا بھی تھا۔

مغلوں نے متحدہ ہندوستان کو جن بنیادوں پر دنیا کی مضبوط، بڑی اور بہترین معیشت کے قالب میں ڈھالا، وہ کسی بھی معیشت کی ترقی کے لئے بنیادی اجزا اور عناصر سمجھے جاتے ہیں، مغل سلطنت کے بنیادی اصول موجودہ پاکستان کو دنیا کی بہترین معیشت بنانے کے لئے آج بھی اُسی طرح قابل عمل ہیں۔ پاکستان میں مغل بادشاہوں کا مذاق تو بہت اڑایا جاتا ہے، لیکن مغلیہ سلطنت میں جس طرح ہندوستان کی امارت اور ترقی و خوشحالی کو دیکھ کر اہل مغرب کی آنکھیں خیرہ ہوئی تھیں، وہ بھی ایسی ہی حقیقت ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اس تحریر کا مقصد وہ حقائق سامنے لانا ہے، جن کا اعتراف مکمل غیرجانبدار محققین نے اپنی کتب میں کیا ہے، ہندوستان بجاطور پر مغل دور میں سونے کی چڑیا بنا اور یہ کام مغلوں نے کیا، لیکن صرف اپنے لیے نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کے لئے، حتیٰ کہ غیر ہندوستانیوں کے لئے بھی! یہ سونے کی چڑیا آنے والی دو صدیوں میں کس طرح زوال اور انحطاط کا شکار ہوئی، آئندہ تحریروں میں اس پر بات ہوگی، فی الحال اس تحریر کا مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی کہانی بہت رفتہ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ ابھی کل کے متحدہ ہندوستان کی بات ہے! ہمارا یہ روشن ماضی اتنا قدیم بھی نہیں ہے جسے چھوا نہ جاسکے! یہ ماضی بعید نہیں ماضی قریب کی ہی کہانی ہے! اور بالکل سچی کہانی ہے، جس کا اعتراف مخالفین بھی کرنے پر مجبور ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).