انتہا پسندی کا مقابلہ: حکومت کے اقدامات قابل اعتبار کیوں نہیں؟


اس حوالے سے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام آباد میں قائم موجودہ حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پاکستان میں ایک حلقہ کی یہ پختہ رائے ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ہی تحریک انصاف کی حکومت بنوانے میں کردار ادا کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے خلاف بھی یہی اسٹبلشمنٹ متحرک تھی۔ اسی کے نتیجے میں ڈان لیکس جیسے اسکینڈل کے ذریعے نواز شریف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اور اسی وجہ سے انہیں ’مودی کا یار‘ جیسا الزام بھی دیا جاتا رہا۔ نواز شریف اور ان کے حامی تسلسل سے یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں اقتدار سے علاحدہ کرنے اور نیب کے ذریعے سزائیں دلوانے میں اسٹبلشمنٹ ہی کا کردار ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مئی 2018 میں ڈان کے سیریل المیڈا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر کسی ملک میں دو یا تین متوازی حکومتیں ہوں گی تو آپ اس ریاست کو نہیں چلا سکتے۔ کسی بھی ملک میں صرف ایک ہی حکومت ہونی چاہیے۔ کوئی بھی آئینی حکومت۔ ۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہم نے خود کو دنیا میں تنہا کرلیا ہے۔ ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جاتا لیکن افغانستان کی بات مان لی جاتی ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے۔ ملک میں انتہا پسند تنظیمیں متحرک ہیں۔ آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ لیں۔ لیکن آپ مجھے اس بات کا جواب دیں کہ کیا ہمیں انہیں سرحد پار کرکے ڈیڑھ سو لوگوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم ان کے خلاف اب تک مقدموں کی کارروائی مکمل نہیں کر سکے؟ (نواز شریف کا یہ اشارہ ممبئی حملوں میں ملوث لوگوں کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں قائم مقدمات کی طرف تھا) ۔ یہ صورت احوال ناقابل قبول ہے۔ ہم اسی مقصد کے لئے جد و جہد کررہے ہیں‘‘۔

اسلام آباد سے حالیہ دنوں میں انتہاپسند عناصر کے خلاف ہونے والے اقدامات پر غور کیا جائے اور وزیر اعظم عمران خان کے بیانات کو پڑھا جائے تو یوں معلوم ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہی ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو اسٹبلشمنٹ گزشتہ حکومت کو انہی گروہوں کے خلاف کام کرنے سے روکنے کا جتن کر رہی تھی، وہ اب اچانک ان کے خلاف ٹھوس اور قابل اعتبار کارروائی کرنے میں کیوں دل چسپی لینے لگی ہے؟

جولائی 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کی ایک لہر ابھری تھی۔ کیا کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے حکومت اور طاقت ور اداروں کو یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ ملک میں ویسی ہی صورت احوال دوبارہ پیدا نہ ہو؟ اور اسی لئے ’باہمی مفاہمت‘ سے پابندی لگانے اور مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے تا کہ سفارتی اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے اور مشکل وقت گزرنے کے بعد یہ گرفت نرم کر دی جاتی ہے۔

حکومت کو انتہاپسندی کے خلاف اپنے اقدامات پر یقین بحال کروانے کے لئے اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی اور ملک سے عسکریت پسند گروہوں کی طاقت سے نمٹنے کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ اس قسم کی اعتماد سازی کے بغیر نہ سرکاری اقدامات پر بھروسا کیا جائے گا اور نہ ہی اس مزاج سے نمٹا جا سکے گا جس کی وجہ سے ملک میں انتہا پسند گروہ پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali