نوآبادیاتی راج میں کشمیر فروخت کی کہانی۔ دوسری قسط


انگریز سرکار ہندستان کی تقسیم امپریل مفادات کے تناظر میں کر رہی تھی، امریکی صدر روزیلٹ کی جانب سے برطانوی سرکار پر مسلسل دباؤ تھا اور ہندستان کی تقسیم میں گریٹ گیم کو پیش نظر رکھا گیا۔ 12 اگست 1941 ء کو روزویلٹ اور ونسٹن چرچل نے ایٹلانٹک چارٹر پر دستخط کیے تھے اس چارٹر کے تحت امریکہ نے آزادی کا نعرہ لگا کر ہندستان چھوڑنے کے لیے برطانیہ پر بالواسطہ دباؤ ڈالا تھا، اس کے بعد جب کرپس مشن کی ناکامی ہوئی تو چرچل کو ساری صورتحال سے متعلق روزیلٹ کو آگاہ کرنا پڑا، اس حوالے سے کتنے خطوط لکھے گئے اس پر کبھی الگ سے بات کریں گے۔

تقسیم ہند میں دراصل تزویراتی ضروریات کو مستقبل کے تناظر میں اہمیت حاصل تھی۔ 25 مارچ 1947 ء میں سوویت یونین میں تعینات برطانوی سفیر نے سٹالن سے ملاقات کی اور ہندستان کی تقسیم میں روسی مداخلت کو روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ریاست کشمیر کے دو علاقے جو برطانیہ نے ہر صورت پاکستان کو دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا، ایک علاقہ برطانیہ کی عالمی حکمت عملی اور تزویراتی مقاصد کے تناظر میں اور دوسرا پاکستان کی زمینی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر تھا۔ یہ چین اور روس کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ پھیلے ریاست کے شمالی علاقے اور پاکستانی پنجاب سے ملحق مغربی جانب پھیلی ایک علاقائی پٹی ہے۔

مہاراجا کشمیر نے 1935 ء میں اس شمالی سرحدی علاقے کی انتظامی اور دفاعی ذمہ داریاں 60 سالہ معاہدے کے تحت برطانوی حکومت کے سپرد کر دی تھیں۔ یہ علاقہ انتظامی لحاظ سے دہلی سے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے سے اسی طرح کنٹرول کیا جاتا تھا جس طرح پختون خوا میں شامل قبائلی ایجنسیاں کنٹرول کی جاتی تھیں جہاں موجود پولیٹیکل ایجنٹ وائسرائے کو رپورٹ بذریعہ پشاور براہ راست بھیجتے تھے۔

تقسیم ہند سے پندرہ دن قبل یعنی یکم اگست 1947 ء کو گلگت کے پٹے کا معاہدہ برطانوی حکومت نے ختم کر دیا اور برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ لیفٹیننٹ کرنل راجر بیکن نے یہ علاقہ سری نگر سے نئے آنے والے ریاستی گورنر بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کے حوالے کر دیا۔ راجر بیکن کا گلگت سے تبادلہ خیبر ایجنسی ہو گیا۔ اب گلگت سکاؤٹس اور پشاور کے درمیان مکمل رابطہ ہو گیا۔ جونہی مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا میجر براؤن کی سربراہی میں گلگت سکاؤٹس نے ریذیڈنسی کو گھیر لیا اور میجر براؤن نے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا اسی وقت میجر براؤن نے پشاور اطلاع بھیج دی کہ گلگت کا پاکستان سے الحاق ہو گیا ہے۔ برطانیہ عظمیٰ کی ملٹری ہسٹاریکل سوسائٹی کے مجلہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

دوسری جانب تزویراتی حکمت عملی کے تحت برطانیہ نے کشمیر کے دریاؤں کے ماخذ اور ان کے ہیڈ ورکس بھارت میں شامل کر دیے، اپر چناب نہر کو مرالہ ہیڈ ورکس سے پانی ملتا ہے جو بھارت میں ہے اور اپر جہلم نہر کو منگلا کے ہیڈ ورکس سے پانی ملتا ہے جو آزاد کشمیر میں ہے پنجاب کی ریاستیں ہوشیار پور، پٹھان کوٹ کی مسلم آبادی 65 فیصد تھی انھیں بھی بھارت میں شامل کیا گیا اسی طرح جب مسلم لیگ پنجاب کی تقسیم پر راضی ہوئی تو باؤنڈری کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کر کے گورداس پور کا ضلع ہندستان کو دے دیا گیا اس طرح بھارت کی سرحد کشمیر سے ملا دی گئی۔

کشمیر معاہدہ لاہور اور معاہدہ امرتسر کے بعد بالواسطہ برطانوی کنٹرول میں تھا اور یہاں کا مہاراجا برطانیہ کی کٹھ پُتلی تھا۔ ہندستان کی افواج انگریز افسروں کی زیر کمانڈ تھیں، نواب، مہاراجوں کو برائے نام کمانڈر انچیف بنا رکھا تھا اور ان کی فوجی وردی بے معنی تھی یہی صورتحال کشمیر کی تھی۔ کشمیر کی پیدل فوج کی جموں اور سری نگر میں ایک ایک انفٹری بریگیڈ تھی۔ ہر بریگیڈ میں چار بٹالین تھیں ہر بٹالین میں مشین گن کی کمپنیاں تھیں۔

دوسری عالمی جنگ میں تو مہاراجہ ہری سنگھ نے انگریزوں کو اپنی پوری فوج پیش کر دی تھی۔ برطانوی سرکار نے کشمیر کی فوج میں دو بریگیڈ کا اضافہ کیا۔ چاروں بریگیڈ کی پلٹن کے علاوہ ہر آرٹلری کی رجمنٹ کو جدید اسلحہ دیا گیا۔ برطانیہ نے اس فوج پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے سب بریگیڈ کمانڈر، بریگیڈ میجر، ڈپٹی اسٹینٹ کوارٹر ماسٹر اور ڈپٹی اسٹینٹ ریجن جرنلز اور ان کا سٹاف انگریز مقرر کر رکھے تھے۔

تقسیم ہند کے بعد جنرل گریسی کو پاکستان فوج کا قائم مقام کمانڈر انچیف کس کی سفارش پر رکھا گیا تھا اس پر جنرل محمد اکبر خان نے اپنی کتاب میں بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔ کشمیر پر جب جنگ مسلط ہوئی تو جنرل گریسی نے قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم کے باوجود کشمیر فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ”میری آخری منزل“ میں لکھتے ہیں کہ:

”جب قائد اعظم کو اطلاع ملی کہ کشمیر پر انڈین فوج نے حملہ کر دیا ہے تو انھوں نے جنرل گریسی (جنرل میسروی ان دنوں لندن میں تھے لہذا ان کی جگہ جنرل گریسی کو کمانڈر انچیف لگایا گیا تھا) کو کشمیریوں کی مدد کے لیے کمک بھیجنے کا حکم دیا مگر جنرل گریسی نے اس حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا اور جنرل گریسی نے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاؤڈ ایکلیک سے مشورہ کیا، سپریم کمانڈر نے وار آفس لندن سے اجازت لینے کے لیے مشورہ کیا اور لندن آفس نے کشمیر میں پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا جس پر بالآخر محمد علی جناح نے بھی کشمیر فوج بھیجنے کے حکم کو منسوخ کر دیا“۔ کشمیر کو مسئلہ کشمیر برقرار رکھنے کی یہ برطانوی مداخلت کی دلیل ہے۔

جب کہ دوسری طرف مہاراجا کشمیر نے 21 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن کو فوجی مدد کے لیے تار بھیجا۔ دہلی میں ماؤنٹ بیٹن نے 22 اکتوبر کو ڈیفنس کی میٹنگ بلائی اور اس اجلاس میں سپریم کمانڈر ایکلیک کو شمولیت کے لیے نہیں بلایا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مہاراجا کو فوجی مدد اُس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک مہاراجا کشمیر کے الحاق کی درخواست نہ دے البتہ اسلحہ، ملٹری سٹور فوری جموں بھیجنے کی منظوری دے دی گئی۔ اور پاکستان میں فوجی صورتحال یکسر مختلف تھی۔ جنرل ہیڈ کوارٹر اور ڈویژن کمانڈ میں برطانوی افسر تعینات تھے۔ جنرل اکبر خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

”لاہور کے ڈپو ہربنس پورہ سے تقریباً پانچ ہزار جیپ گاڑیاں اور چند ہزار لاریاں جو استعمال کے قابل تھیں لاہور کے ڈویژن کے انگریز کمانڈر نے مع پیرا بریگیڈ کے جنرل گریسی کی اجازت پر بھارت بھیج دیں، یہ سامان کشمیر نہ پہنچتا تو بھارتی فوج وقت پر سری نگر میں ہوائی جہازوں سے اتاری نہ جاسکتی اور نہ ہی وہ پہاڑی علاقوں میں بغیر جیپ گاڑیوں کے نقل و حرکت کر سکتی“۔ یہ سب کچھ آزاد پاکستان میں ہو رہا تھا اور حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔

پاکستان نے ملک میں برطانوی مداخلت کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے مزید سیاسی غلطیاں کیں۔ ملک میں سندھ کو چھوڑ کر باقی تمام صوبوں کے گورنرز انگریز مقرر کر دیے گئے۔ بنگال میں سر فریڈرک بون، پنجاب میں سر فرانسس میودی، سرحد میں سر چارج کمنگھم، بلوچستان میں اے جی جی کو گورنر لگایا گیا۔ جب کہ دوسری جانب زمینی فوج کے سربراہ کمانڈر انچیف جنرل سر فراک میسروی، ہوائی فوج کے سربراہ ایئر وائس مارشل پیری کین اور سمندری فوج کے سربراہ بھی ریئر ایڈمرل جیفرڈ انگریز تھا، افواج میں مجموعی طور پر 500 انگریز آفیسرز شامل تھے جبکہ فوج کی از سر نو تنظیم کی ذمہ داری بھی انگریز جنرل راس میکے کو سپرد کی گئی۔ یہ آزاد پاکستان کا ابتدائی نقشہ تھا۔

کشمیر کا مسئلہ تو برطانیہ اور امریکہ کا مشترکہ طور پر پیدا کردہ ہے۔ سلامتی کونسل میں بھی جب کشمیر کامسئلہ لایا گیا تو امریکہ و برطانیہ اس پر اثر انداز رہا، اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندو پاکستان میں بھی یہ دو ممالک اپنے تزویراتی مفادات کو دیکھتے رہے یہی وجہ ہے کہ نوئل بیکر کی سربراہی میں تشکیل پانے والے وفد نے کشمیر کا معاملہ سلجھانے کے لیے واشنگٹن جا کر امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ لوویٹ سے ملاقات کی۔

دونوں ملکوں کے درمیان اب یہ خفیہ طور پر طے ہوگیا کہ کشمیر میں فوری جنگ بندی کرائی جائے تاہم اس مسئلے کو قائم رکھنا گریٹ گیم کی کامیابی کے لیے ضروری ٹھہرا۔ امریکہ کے دباؤ پر جنگ بندی تو ہو گئی لیکن رائے شماری آج تک نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد امریکی خارجہ پالیسی پر جب معاہداتی رجحان غالب آیا تو پاکستان اور مغربی طاقتوں کے درمیان دفاعی معاہدوں کے لیے باہمی رضا مندی والی شرائط کی تلاش شروع ہوئی۔

پہلا معاہدہ جو بغداد پیکٹ کے نام سے موسوم ہوا اس میں پاکستان، ایران، عراق اور ترکی نے برطانیہ کے ساتھ مل کر گریٹ گیم کے بڑے ہدف سوویت یونین کے خلاف ایک پختہ دیوار قائم کی گئی، چند سال بعد یہ دفاعی معاہدہ سینٹو کا روپ اختیار کر گیا جس میں برطانیہ کی جگہ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف گریٹ گیم میں مغربی ٹیم کے کیپٹن کی جگہ سنبھال لی یوں گریٹ گیم نے عالمی جہتیں اختیار کر لیں اور آج تک بھارت و پاکستان استحکام کے لیے دفاع کی فکر مندی کا شکار ہے اور یہ فکر مندی امریکہ سمیت یورپ کی 20 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کا پیٹ پالنے کا باعث بنی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگی کشیدگی کو اس تاریخی تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔

یہ برطانوی راج کی برعظیم میں خفیہ کارروائیوں کی داستان ہے جس نے آج اس خطے کو عدم استحکام کے خوف سے دوچار کر رکھا ہے۔ تھریسا مے جب برطانیہ کی وزیر خارجہ تھی تو لاہور دورے پر مجھے اس کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا تھا کافی سمجھدار خاتون لگی لیکن گزشتہ ہفتے جب برطانوی پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم یہ کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ حالات پر ہمیں تشویش ہے، تو مجھے تب پکا یقین ہوگیا کہ سامراج دہری چال چلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).