اصلی عورت مارچ کے درست بینر


عورت کا دن آیا ہی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، اور ہر طبقہ اپنے دلائل کی تلواریں سونتے، مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے، اور جو بھی کوئی اس جنگ میں اعتدال کا مشورہ دے رہا ہے وہ بھی کٹ کٹ کر گر رہا ہے، اس میں اداکار بھی ہیں اور قلمکار بھی، اور تو اور اس طوفان نے عورت کی سب سے بڑی وکیل کشور ناہید کو بھی جا لیا۔

مرد، مردوں کی سننے پر تیار نہیں، عورتیں، عورتوں کی عزتیں اچھال رہی ہیں۔ ایسے طوفانی موسم میں، مجھ جیسے مذہبی لبرل، پوسٹکولونئیل فیمینسٹ، پوسٹ ماڈرن اینالسٹ کمبل مزید تان لیتے ہیں کیونکہ فضا میں ابھی خنکی ہے۔

ہم سب شاید اس طوفان کے تھمنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر مردوں کا ان آوارہ، بد چلن عورتوں کے گندے پوسٹرز، کپڑوں اور میک اپ سے دھیان ہٹے تو ہم سب انہیں ان تکالیف کا احساس دلائیں جو مجھ جیسی بغیر میک اپ کے برقعہ پوش خواتین کو بھی ان نعروں کی تائید پر مجبور کرتی ہے۔

مگر ان آوارہ، بد چلن عورتوں نے تو اس دن کی حرمت کا مذاق ہی اڑوا دیا، اپنا جوتا خود گانٹھ لینے والے نبیؐ کے امتیوں سے اپنا موزہ خود ڈھونڈ لینے کا مطالبے کی بھلا کیا منطق؟
کھانا پکانے میں بیوی کی مدد کرنے والے امام کے پیرووں سے کھانا خود گرم کرنے کی استدعا، چہ معنی دارد؟
زرخرید لونڈی کے ساتھ دن بانٹ کر کام کرنے والی بی بی کے نام لیواوں سے ڈومیسٹک ہیلپ کو مینیمم ویج دینے کی گزارش کی کوئی تک؟

آخر ہم ایک اسلامی جمہوریہ کے باشندے ہے جہاں اسلام لوگوں کی زندگی کا کوڈ آف کنڈکٹ ہے، جہاں مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے، اسے جائداد میں آدھا حصہ دیا جاتا ہے، جہیز کا تو ذکر ہی کیا، عورت اپنے بچوں کو پالنے کا بھی اجرت خاوند سے پاتی ہے، مجالس اور محافل میں عورتوں کا ذکر آتے ہی نظریں جھک جاتی ہیں، بازاروں میں حضرت یوسفؑ کے ماننے والے اس قدر نظریں جھکا کر چلتے ہیں کہ حادثہ ہوتے ہوتے بچے، عورت کی مرضی جانے بغیر اس کی شادی کا تصور ہی کیا، کوئی بھی مطلقہ یا بیوہ عورت کسی بھی مسجد کے منتظم کے ذریعے کسی بھی نیک انسان کے ساتھ اپنے رشتے کی بات کر سکتی ہے، مسجد کا منتظم ہر اس عورت کو سراہتا ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا شوہر منتخب کرتی ہے۔

وہ مطلقہ اور بیوہ عورتیں جو کسی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتیں مملکت اسلامیہ، اسلامی اصولوں کے مطابق ان کے اخراجات بیت المال سے ادا کرتی ہے۔ عورت کی حفاظت کے قوانین انتہائی سخت ہیں، اور عین اسلامی ہیں۔ اب اور کیا بتاوں، آپ تو سب جانتے ہی ہیں، اب جب مملکت خداداد اسلام پر اس قدر عمل پیرا ہے تو مجھے ان نا معقول خواتین کی بک بک جھک جھک کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

میں نے ایسی ہی ایک اخلاق باختہ خاتون سے پوچھا کہ اس قدر فحش پلے کارڈز اٹھا کر مارچ میں جاتے تمہیں ذراشرم نہ آئی، کیا اسلام نے یہ سب حقوق تمہیں پہلے سے نہیں دے رکھے؟

وہ بدکار فٹ سے بولی، اسلام نے دیے تھے، تم لوگوں نے غصب کر لئے۔ منحوس ماری۔ مگر میرے عزیز ہم وطنو، پاکستانیو، پریشان نہیں ہونا۔ آپ کی بہنوں نے ان عورتوں کو منہ توڑ جواب دینے کا منصوبہ بنا لیا ہے تا کہ ان کی پھیلائی گئی برائیوں کا قلع قمع کیا جا سکے اور ان کی اصلاح کی جا سکے۔

چونکہ ان کے پلے کارڈز آپ کو ذرا پسند نہیں آئے اس لیے اپنے پاکستانی بھائیوں کی پر زور فرمائش پر ان کی تصحیح کر کے نئے مارچ میں پیش کیے جائیں گے۔ مارچ کا نام ہوگا۔ اصلی عورت مارچ۔

جبکہ پلے کارڈز پر لکھا جائے گا

عورت صرف بچہ پیدا کرنے کی مشین ہے،

گھٹیا مرد ہی سر کا تاج
تم آوارہ، تم بد چلن
میرا جسم، تمہاری مرضی
سے یس ٹو سیکشوئل ہراسمنٹ

جہیز ہر مرد کا بنیادی حق ہے
جہیز کی مانگ، غیرت کا کام
جہیز دیں، جائیداد میں حصے کو دفع کریں

بیٹی دل میں مگر ول میں صرف بیٹا
بہت افسوس ہوا بیٹی ہوئی ہے

لائن میں آگے جگہ دو، عزت بے شک نہ دو
گلیوں کو عورتوں کے لیے محفوظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں

زچگی چھٹیوں کی ضرورت ہی کیا ہے
ماں نہیں ہوں، بہن نہیں ہوں، گالی ہوں
گھریلو ملازمین کو سماجی تحفظ مت دو

میری بیٹی نہیں پڑھے گی
آپ ڈومیسٹک ہیلپ کو ویج بے شک نہ دیں

عورت، جنگ کے حق میں۔
عورت کا صاف پانی پر کوئی حق نہیں

چلو، صحیح طرح سے نہیں بیٹھتی
جو بھی پکس ہیں، سینڈ کر دو،
اپنی نظر کو آزاد رکھو
کھانا کما کر بھی دوں گی، پکا کر بھی دوں گی، گرم بھی کر دوں گی اور تمہارے موزے، کپڑے سب ڈھونڈ کر دوں گی، تم آرام سے اعتکاف بیٹھ جانا۔

نوٹ۔ یہ تمام کارڈز عورت مارچ کے اصلی پلے کارڈز سے تصحیح کردہ ہیں۔ انگریزی میں ہونے کے باعث کچھ کارڈز کی ترجمہ شدہ تصحیح پیش کی گئی ہے۔

تمام کارڈز کی تصحیح نہ کر پانے پر معذرت۔
براہ کرم اس مارچ کے لیے تاریخ کا تعین کرنے میں مدد کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).