عورت مارچ اور اسلامی لبرلزم


چند روز قبل عورت مارچ میں عورت کے حقوق کے نام پر جس بیہمانہ طور سے عورت کی بے ہرمتی کی گئی ہے اس پر حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا ہے کہ معاشرے کے ایک انتہائی سنگین مسئلے کو چند مغرب زدہ عورتوں نے مسخرہ پن بنا دیا۔ اس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں ہے کے اس معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال عورت ہی کا ہوتاہے اور اس پر کھل کر بات ہونی بنتی ہے لیکن کچھ سو کالڈ لبرل خواتین نے مسائل سے زیادہ جنسی معاملات کو پوسٹرز کی زینت بنا کر خود کو بولڈ منوانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے لئے عورت مارچ بھی بس ایک ایونٹ سے بڑھ کر کچھ نہ تھا جس میں وہ اپنے آزاد، بولڈ اور لبرل ہونے کا راگ الاپتی رہیں۔

ہنسی مذاق اور سوشل میڈیا پر کی بورڈ وارئرز کی مرچ مصالحے سے بھرپور بحث کے تلے عورت کے اصل مسائل کہیں دب کر رہ گئے۔ وہ عورت جو پورا دن لوگوں کے برتن مانجھ کر شام کو گھر آ کر اپنے نشئی شوہر سے مار کھاتی ہے اس کے زخم ویسے ہی نیلے رہ گئے۔ وہ لڑکی جو اپنے بیمار باپ کی دوا کی خاطر کسی بدبودار فیکٹری میں روز لوگوں کی حریص نظروں سے بدن چھلنی کروا کر رات کو گھر آ کر پھر چولہے کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اُس بیچاری کے سب ارمان اب بھی اسی آگ میں جل رہے ہیں۔

لیکن ہماری ماڈرن آنٹیاں خوش ہیں کے انہیں فیسبک اور انسٹاگرام کے لئے بہت ساری تصاویر مل گئی ہیں اور سوشل ویلفیئر کا ٹیگ بھی بخوبی لگ رہا ہے۔ ان کو آزادی صرف منہ پھاڑ کر مردوں کے خلاف بولنے میں نظر آتی ہے۔ آزادی کا اصل مطلب ان کو نہیں پتہ جو کہ اپنی مرضی کا انتخاب ہے۔ اگر ایک عورت خود با پردہ رہنے کا انتخاب کرتی ہے تو وہ ان کو آزاد نہیں لگتی۔ میں عورت مارچ کے حق میں ہوں اور اس کو بھرپور سپورٹ کرتا ہوں لیکن تب جب عورت کی حقیقی آزادی پر بات کی جائے نہ کے عورت کو objectify کیا جائے۔

اِن بیکن ہاؤس اور LGS کی تعلیم یافتہ پورا دِن اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھنے والی خواتین کو کون سمجھائے کہ  اسلام طاقتور، آزاد اور مضبوط عورتوں کی کیا داستانیں رکھتا ہے۔

کہ ہمارے لئے تو سب سے پہلی مثال حضرت خدیجہ کی ہے جو عرب کی سب سے بڑی کاروباری خاتون تھیں۔ آزاد خیالی کی مثال یہ کہ خود حضرت محمد کے لئے شادی کی پیشکش بھیجی۔ عورت کے مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا لیں کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو خوف کے آلم میں کسی مرد کی بجائے اُسی مضبوط خاتون کے پہلو میں پناہ لی اور اُسی کو سب حال سنایا۔

بعثت سے پہلے جب ابوالعاص خود رسول کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں آپ کی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں تو حضور اس کو کہتے ہیں کہ مجھے اجازت لے لینے دو زینب سے اور جب گھر آ کر بیٹی سے پوچھتے ہیں کہ تیرے خالہ زاد نے تیرا نام لیا ہے تجھے منظور ہے؟ تو زینب کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ مسکرا دیتی ہے۔ زینب کی مرضی پتہ لگنے کے بعد ابوالعاص کو ہاں کرتے ہیں۔ consent کا اصل مطلب جاننا ہو تو اسلام کو حقیقی معنوں میں پڑھئے شاید بہتر لبرل بن پائیں اور سمجھ پائیں کہ عورت کو درپیش سب مسائل معاشرتی ہیں اور اسلامی تعلیمات ان کو ختم کرنے کی راہیں دکھاتی ہیں کہ اسلام تو اتنا لبرل ہے کہ عورت اگر اپنے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ بھی مرد سے طلب کرے تو وہ بھی اسکوادا کرنا ضروری ہے اور اسی طرح اگر وہ کھانا خود بنانے کی بجائے ملازمہ رکھنے کا مطالبہ کرے تو اسلام یہ مطالبہ بھی ماننے پر زور دیتا ہے۔

باقی رہی عورت کے حقوق کی بات تو بہت اچھا ہے کہ آپ سڑکوں پر نکلیں، احتجاج کریں۔ لیکن اپنا قبلہ درست رکھیں۔ سیاست میں حصہ لیں اور وہ جو سب چھریاں جو کچن میں ہیں انہیں پارٹیز کے قائدین کی گردن پر رکھ کے پوچھیں کہ خواتین کے لئے صرف 5 فیصد ٹکٹس کیوں رکھی ہیں؟ جبکہ آبادی میں خواتین زیادہ ہیں۔

اور اسمبلی میں جو خواتین کا 17 فیصد فکسڈ کوٹہ ہے جس پہ بڑے بڑے گھروں کی خواتین بغیر الیکشن لڑے قابض ہو جاتی ہیں اس کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔ اپنی سمارٹنس سے دنیا میں اپنا لوہا منوائیں نہ کہ اپنے اعضاء پوسٹر پر چھپوا کر چوک پر رولا ڈال کر۔

تب ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ ہم بھی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں والے ہیں اور ہمیں بھی وہ پاکستان چاہیے جسمیں ہماری عورتیں object کی بجائے انسان کہلائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).