کالج اساتذہ کی کون سنے گا؟


کالج اساتذہ گزشتہ تین برسوں سے اپنی نمائیندہ تنظیم پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے توسط سے احتجاج اور مذاکرات کے ذریعے اپنے سروس سٹرکچر میں اصلاحات کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پنجاب کی طاقتور افسر شاہی اور عوامی نمائندوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس سال پھر کالج اساتذہ نے اپنی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے 26 مارچ کو پنجاب اسمبلی ہال کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بات نہایت غیر مناسب لگتی ہے کہ اساتذہ جو کہ معاشرے کا سب سے زیادہ باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ سڑکوں پر آجائیں لیکن اساتذہ کرام کو اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا۔

اگر کالج اساتذہ کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کسی نئے سروس ایگریمنٹ یا تنخواہ میں اضافہ کرنے کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ پنجاب کے کالج اساتذ ہ کو صوبہ کے پی کے کے کالج اساتذہ کی طرز پر سروس سٹرکچر کا حصول ہے۔ اگرچہ صوبہ کے پی کے کے کالج اساتذہ کو یہ سروس سٹرکچر اکتوبر 2017 میں بنی گالہ میں احتجاجی دھرنے کے بعد ملا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہی مراعات اور اصلاحات پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد کالج اساتذہ کو دے دی جاتی مگر شاید دھرنوں کی سیاست کرنے والے افراد کو دھرنوں کے علاوہ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔

اس وقت پنجاب میں کالج اساتذہ کی ترقی کے لئے چار درجاتی فارمولہ ( 3 : 19 : 36 : 42 ) نافذ ہے۔ جس کی وجہ سے کالج اساتذہ کی گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ اکثر اگلے درجہ میں ترقی کے لئے پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔ لہذا کالج اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گریڈ اٹھارہ اور گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ترقی کے لئے اجلاس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ یہ سب محکمہ اعلی تعلیم کے افسران کی صوابدید پر منحصر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کے پی کے میں کالج اساتذہ پانچ درجاتی فارمولہ ( 0.5 : 6 : 22 : 35 : 36.5 ) سے مستفید ہورہے ہیں۔

محکمہ اعلی تعلیم میں اصلاحات نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اس محکمہ میں غیر پر کشش ہونے کی وجہ سے گریڈ بیس کے افسران کی عدم دلچسپی بھی ہے۔ گزشتہ تیس ماہ میں دس سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں۔ اوسطا ایک سیکرٹری نوے دن سے زیادہ نہیں گزارتا۔ آخری صوبائی سیکرٹری کیپٹن (ر) محمد محمود نے تو صرف اڑتالیس گھنٹے کے لئے چارج سنبھالا تھا۔

ترقی کے علاوہ کالج اساتذہ کا ایک بڑا مسئلہ پے پروٹیکشن ہے۔ یہ مسئلہ 2002، 2005، 2009 اور 2012 میں پی پی ایس سی کے ذریعے بھرتی ہونے والے لیکچررز کا ہے۔ یہ تمام لیکچرر کنٹریکٹ پالیسی کے ذریعے بھرتی ہوئے تھے۔ اور ان کے معاہدے میں درج تھا کہ ریگولر ہونے کے بعد ان تمام اساتذہ کو پے پروٹیکشن دی جائے گی۔ اس کے بعد 2015 سے کنٹریکٹ بھرتی کی پالیسی بھی ختم ہو گئی اور اب تمام نئے لیکچرر پہلے دن سے ریگولر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مذکور بالا لیکچررز کا کنٹریکٹ کا عرصہ سروس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس وقت کے پی کے میں تمام ملازمین کو پے پروٹیکشن دی جا چکی ہے۔

اسی طرح اگر صوبہ کے پی کے میں کالج اساتذہ کے الاونسز پر نظر دوڑائی جائے تو پی ایچ ڈی الاونس، ہارڈ ایریا الاونس اور بی ایس انسنٹو میں کے پی کے صوبہ پنجاب سے آگے ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کالج اساتذہ کو سٹرکوں پر آنے سے روکے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرکے درس و تدریس کے نظام میں اصلاحات نافذ کرے کیونکہ استاد کی شرکت اور دلچسپی کے بغیر کوئی بھی تعلیمی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر استاد ہی اپنے آپ کو محرومی کا شکار سمجھے گا تو پھر ایک با اعتماد نسل کی تیاری ممکن نہیں ہوسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).