دہشت گردی اور اسلامو فوبیا کی بحث میں مسلمان لیڈروں کا کردار


نیوزی لینڈ میں ایک نسل پرست دہشت گرد کے ہاتھوں پچاس لوگوں کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کی توجیہ اور اسلامو فوبیا کی تفہیم کے بارے میں مباحث شدت اختیار کرچکے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے علاوہ یورپ میں آباد مسلمانوں میں بھی یہ بحث ہورہی ہے کہ وہ جن ملکوں میں جاکر آباد ہوئے ہیں، وہاں وہ کس حد تک محفوظ ہیں۔ کیا ان کے بچوں کا مستقبل اور ان کی زندگیاں محفوظ ہیں یا دگرگوں معاشی حالات میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور شدت پسندی مسلمانوں کے لئے مسائل اور اندیشوں کا سبب بنے گی۔

یہ سارے اہم سوالات ہیں۔ خاص طور سے نیوزی لینڈ جیسے پر امن اور دور دراز ملک نیوزی لینڈ کے ایک شہر میں جمعہ کے روز ہونے والی نفرت سے لبریز واردات کے بعد سفید فام نسل پرستی، اسلام دشمنی اور دہشت گردی کے ساتھ اس سیاسی نظریہ اور مزاج سے پیدا ہونے والے اندیشے بھی درست ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے فکری اور عملی اقدامات بھی ضروری ہوں گے۔ کرائسٹ چرچ میں ہونے والا سانحہ اگرچہ بہت ہولناک ہے اور اس میں درجنوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں لیکن اس واقعہ سے سامنے آنے والے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ان سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے اپنی گفتگو اور طرز عمل سے سیاسی استقامت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے پہلے ہی دن ترک وطن کرکے نیوزی لینڈ میں قیام کرنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو ’ اپنے لوگ‘ قرار دیا جبکہ حملہ کرنے والے آسٹریلیا کے سفید فام دہشت گرد کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ ’ہم میں سے نہیں ہے‘۔ ایرڈن کو اس بات کا کریڈٹ بھی دینا پڑے گا کہ انہوں نے بلا توقف اس سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا اور کرائسٹ چرچ کی پولیس اب اس واقعہ کی دہشت گردی کے سانحہ کے طور پر ہی تفتیش کر رہی ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا اہم ہے کہ خدا نخواستہ اس قسم کا سانحہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں ہوتا تو شاید وہاں کی حکومت اس نسل پرستانہ حملہ کو دہشت گردی قرار دینے سے گریز کرتی اور اسے معصوم لوگوں کا قتل عام کہتے ہوئے، ملزم اور اس کے اقدام کی مذمت کو کافی سمجھا جاتا۔

نیوزی لینڈ کی حکومت کی طرف سے کرائسٹ چرچ واقعہ کو دہشت گردی قرار دینے سے ہی یہ نقطہ نظر تسلیم کیا جارہا ہے کہ کسی بھی نظریہ، خیال یا تصور کے تحت معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والا عمل دہشت گردی کہا جائے گا۔ مسلمانوں کی طرف سے نائن الیون کے بعد سامنے آنے والی صورت حال اور مسلمان گروہوں کی طرف سے سنگین تشدد کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ گلہ کیا جاتا رہا ہے کہ چند گمراہ لوگوں اور گروہوں کی حرکتوں کو اسلام اور مسلمانوں کے سر تھوپ کر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری اور ان کے عقیدہ کی توہین کی جاتی ہے۔ جبکہ یورپ اور دوسرے ممالک میں جب مسلمانوں کے خلاف تشدد یا نفرت کا اظہار سامنے آتا ہے تو اسے دہشت گردی یا اتنا سنگین جرم نہیں سمجھا جاتا جس قدر مسلمان گروہوں کے حملوں کو قرار دیا جاتا ہے۔

 کرائسٹ چرچ حملہ کے بعد مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ اس واقعہ میں ملوث شخص یا افراد کو بھی ذہنی معذور قرار دے کر اس سانحہ کو قتل عام کہا جائے گا لیکن اسے دہشت گردی نہیں سمجھا جائے گا۔ تاہم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے واقعہ کی تفصیلات اور کثیر تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کی اطلاع ملنے کے بعد واضح کیا تھا کہ اسے دہشت گردی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ دو روز کے دوران نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کر کے، مساجد کے باہر جمع ہو کر اور پھول پہنچا کر یہ واضح کیا ہے کہ وہ سب بھی جیسنڈا ایرڈن کے بیان کی توثیق کرتے ہیں۔

اسی طرح آسٹریلیا میں کرائسٹ چرچ سانحہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر ایننگ نے کہا تھا کہ مسلمان تارکین وطن کی وجہ سے ہی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ برینٹین ٹورینٹ جیسا شخص مسلمانوں پر حملہ کرنے پر مجبور ہؤا ہے۔ اس آسٹریلوی سینیٹر کے اشتعال انگیز مؤقف کے خلاف نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں وسیع پیمانے پر رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ اس وقت ہؤا جب سترہ برس کے ایک نوجوان نے سینیٹر کے سر پر انڈا دے مارا۔ سینیٹر ایننگ نے اس کے جواب میں اس نوجوان کو دو گھونسے رسید کئے۔ تاہم آسٹریلیا میں نسل پرست سینیٹر پر حملہ کرنے والے نوجوان کو فوری طور پر قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس نوجوان کے وکیل کی دو ہزار ڈالر فیس ادا کرنے کے لئے  آن لائن مہم شروع کی گئی جس میں چوبیس گھنٹے کے اندر 25 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم وصول ہو چکی ہے اور مزید لوگ اس میں چندہ دے رہے ہیں۔ اس مہم کو اس سلوگن کے ساتھ چلایا گیا تھا’ لیگل فیس اور مزید انڈے‘۔

اب مہم شروع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس مد میں جو رقم وصول ہوگی، اسے کرائسٹ چرچ کے متاثرین کی مدد کے لئے دیا جائے گا۔ پولیس ایک طرف انڈا پھینکنے والے نوجوان کے خلاف تفتیش کررہی ہے تو دوسری طرف سینیٹر ایننگ کی طرف سے نوجوان پر تشدد کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے اتوار کو میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سینیٹر ایننگ کے خلاف قانون کی پوری قوت استعمال کی جائے‘۔ اس طرح انہوں نے نسلی تعصب پر مبنی رویہ کو مسترد کرتے ہوئے، نسلی تعصب کے خلاف پائی جانے والی بے چینی کو زبان دی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے اور تشدد کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

کرائسٹ چرچ کا سانحہ شاید طویل عرصہ کے بعد ایسا واقعہ ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان یک آواز ہیں۔ اس حملہ اور قتل عام کی مذمت کی جارہی ہے اور اسے دہشت گردی قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت یا اسلامو فوبیا کے رجحان کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ تاہم مسلمان یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے بھی سیاسی اور فکری انتشار کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کرائسٹ چرچ کی مسجد النور کے حوالے سے یہ بحث سامنے لائی جاتی ہے کہ یہ کس فرقہ سے تعلق رکھتی ہے اور کبھی یہ بحث کی جا رہی ہے کہ یہ حملہ صرف ایک نسل پرست دہشت گرد کا حملہ نہیں ہے بلکہ یہ عیسائی دہشت گرد کی مسلمانوں کے خلاف کارروائی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali