اسد عمر کی باتیں: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی


وزیر خزانہ اسد عمر نے ’خوش خبری‘ دی ہے کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف سے پیکیج نہ لیا تو ملک میں افراط زر کو قابو میں رکھنا اور ڈالر کی شرح کو روپے کے مقابلے میں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں اور دیگر لوگوں کے براہ راست سوالات کے جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے قوم کو البتہ یقین دلایا ہے کہ جلد ہی یہ پیکج لے لیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے وضاحت کی اب آئی ایم ایف پہلے جیسی سخت شرائط عائد نہیں کرسکتا بلکہ ان شرائط پر قرضہ دینے کے لئے آمادہ ہوجائے گا جو تحریک انصاف کے عوام دوست ایجنڈے کے عین مطابق ہوں گی۔ ایک اخبار کے رپورٹر نے جب اس بارے میں عالمی مالیاتی فنڈ کی مقامی نمائیندہ ٹریسا ڈابان سانچیز سے رابطہ کیا تو انہوں نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ’پالیسیوں اور اصلاحات کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے۔ یہ مذاکرات اگلی سطح پر رابطوں کے لئے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں‘ ۔ یہ بات بہر طور حیرانی کا سبب رہے گی کہ ضرورت مند بھی پاکستان، قرضہ بھی اس حکومت کو چاہیے اور شرائط بھی اسد عمر طے کریں گے۔ یہ طرفہ تماشہ کیسے ممکن ہوگا؟

وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے بیان میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش بھی بے سود ہوگی۔ صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سنجیدہ مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے سیاست کرنے کی بجائے اگر نپی تلی گفتگو کی جائے تو وہ باہمی مذاکرات اور معاشی فیصلوں کے لئے بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اسد عمر چونکہ نیا پاکستان بنانے والی پارٹی کے وزیر خزانہ ہیں اور لگاتار ناکامیوں کے باوجود انہیں ابھی تک اپنے چئیر مین اور ملک کے وزیر اعظم عمران خان کی حمایت بھی حاصل ہے، اس لئے وہ معیشت میں سیاست کی ملاوٹ سے باز نہیں آسکتے۔

اسی سیاسی ضرورت کی وجہ سے انہیں بات بے بات سابقہ حکومتوں کو موجودہ مسائل کا ذمہ دار قرار دینا پڑتا ہے اور اسی لئے براہ راست اپنی مالی پالیسی اور اس کے منفی اور مثبت اثرات کے بارے میں پروفیشنل انداز میں مختصر بات کرنے کی بجائے انہوں نے براہ راست سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ’دل کھول کر‘ معاملات پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس طرح مالی منڈیوں میں ہراس پیدا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ نہ پاکستان کے مالی مسائل نئے ہیں اور نہ ان سے نمٹنے کے لئے حکومت کی مجبوریاں نئی ہیں لیکن اب وزیر خزانہ ان پرانے ہتھکنڈوں کو نئے پاکستان کے بر گ و بار بتا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دو ٹوک انداز میں بتا دیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے میں کامیاب نہ ہوئی تو لوگ تیا رہوجائیں۔ مہنگائی اور مہنگے ڈالر کا ایک نیا طوفان نئے پاکستان کے ہر گھر کا رخ کرنے والا ہے۔ اس کے باوجود اسد عمر کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کے مالی فیصلے غریب نواز ہیں اور ان پالیسیوں کے منفی نتائج صرف امیر طبقے یا ان لوگوں پر مرتب ہورہے ہیں جو توانا مالی حیثیت رکھتے ہیں اور زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہیں۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے غریبوں کی ہمدردی میں جو حکمت عملی تیار کی ہے، شاید اسی کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے بعد آج بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 81 پیسے اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ شاید وزیر خزانہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ غریب لوگ تو پیٹرول، ڈیزل یا گیسولین جیسی فضول چیزوں کو استعمال کرنے کی ’عیاشی‘ نہیں کرتے اور نہ ہی گیس استعمال کرنا ان کا شیوہ ہے کیوں کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت غریب کی مدد کے منصوبے ’احساس‘ کے تحت غریبوں کے کھانے پینے اور رہنے کا بند و بست کررہی ہے۔ اسی طرح بجلی کی قیمت میں تقریباً ایک روپیہ فی یونٹ اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے بھی یہی سوچا گیا ہوگا کہ یہ کون سا غریبوں نے ادا کرنا ہے۔ اسد عمر تو ملک کی اشرافیہ کو ناکوں چنے چبوانا چاہتے ہیں۔

یا ہوسکتا ہے وزیر خزانہ اس طرح ملک کے غریبوں کو، جو ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، یہ مشورہ دے رہے ہوں کہ انہیں گیس، پیٹرولیم اور بجلی سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ ملک کے امیر اور ’نیم امیر‘ بھی ان ناپسندیدہ مصنوعات سے پرہیز کرنے میں ہی بھلائی سمجھیں کیوں کہ جائزوں کے مطابق ملک میں گیس، پیٹرول اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے نچلے متوسط طبقہ کے مالی حالات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں کہ اس کی اکثریت تیزی سے غربت کی نچلی لکیر کو عبور کررہی ہے۔

اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ روزگار کے مواقع محدود اور اشیائے صرف کی دستیابی ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ اسی کو ماہرین معاشی جمود کہتے ہیں۔ جب متوسط طبقہ اپنے اخرجات پورے کرنے کے قابل نہ رہے اور غریب کو گھر کا چولہا جلانے کے لئے روزمرہ کی بنیاد پر کام دستیاب نہ ہو تو معیشت کی پیداواری صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ جس سے کسی بھی معیشت میں تعطل اور زوال کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

کسی حد تک مقام شکر ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ کو اس بات کا احساس تو ہے۔ اسی لئے وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ تاکہ ملک میں جاری معاشی جمود کو توڑا جاسکے۔ معاشی تحرک پیدا ہو۔ سرمایہ دار کا اعتماد بحال ہو اور سرمایہ کاری کے ذریعے قومی پیداوار کے اشاریے بہتر ہو سکیں۔ فی الوقت یہ اشاریے بدستور نیچے کی طرف محو سفر ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مالی سال میں ملک میں قومی پیداوار کی شرح چار فیصد سے بھی کم ہوجائے گی جبکہ افراط زر میں بدستور اضافہ ہوگا۔

تاہم اسد عمر نے لوگوں کو اس بات پر خوش ہونے کی تلقین کی ہے کہ شکر کریں کہ مہنگائی میں اضافہ ا بھی دس فیصد سے کم ہے اور ماضی کی طرح ڈبل ڈیجٹ کو عبور نہیں کیا۔ معیشت میں بے چینی اور بد اعتمادی کی موجودہ صورت حال اور افراط زر کے بارے میں لگائے گئے اندازوں سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ سال رواں کا قومی بجٹ سامنے آنے تک مہنگائی سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے نیا ریکارڈ قائم کرسکتی ہے۔

آئی ایم ایف سے ملنے والا پیکج بھی خواہ اس کی مالیت چھے ارب ڈالر ہو یا بارہ ارب ڈالر، صرف اسی وقت معاشی احیا کا سبب بن سکتا ہے جب حکومت قومی پیداوار اور سرکاری آمدنی میں اضافہ کا اہتمام کرسکے گی۔ اسد عمر نے معیشت کی جو افسوسناک تصویر پیش کی ہے، وہ سرکاری پالیسیوں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ ایک ایماندار اور محنتی وزیر اعظم کی موجودگی کے باوجود ٹیکس دہندگان کی شرح میں اضافہ نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی اخراجات میں کمی اور آمدنی بڑھانے کا کوئی مناسب بند و بست کیاجاسکا ہے۔

حالانکہ اخراجات کم کرنے کے عظیم مقصد سے ہی وزیر اعظم نے پرائم منسٹر ہاؤس کی گاڑیوں کے علاوہ بھینسوں کو بھی فروخت کردیا تھا لیکن مصارف کم ہونے کا نا م نہیں لیتے۔ شاید اسی لئے عمران خان اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو وفاقی حکومت کی عسرت کی وجہ سمجھنے لگے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وفاق کو ’خوش حال‘ کرنا ہے تو صوبوں کو دیے جانے والے وسائل کم کرنا پڑیں گے۔ وزیر اعظم بھی اپنے وزیر خزانہ کی طرح یہ سوچنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ صوبوں کا آئینی حق کم کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے حکومت یہ توانائی اپنے مصارف کم کرنے اور آمدنی میں اضافہ کرنے پر کیوں صرف نہیں کرتی؟

تحریک انصاف نے خواہ کسی نابغہ کے کہنے پر برسر اقتدار آکر ایک کروڑ روزگار اور پچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ بنایا ہو اور اسے اپنے ’غریب نواز‘ پروگرام کے طور پر پیش کیا ہو۔ لیکن اس کا بنیادی تصور بھی یہی بنیادی معاشی اصول ہے کہ سرمایہ کاری کی جائے تاکہ معاشی تحرک پیدا ہو اور روزگار کے مواقع ملنے لگیں۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ وہ پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ شروع کرے گی تو ان کی تعمیر کے لئے صرف ہونے والی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہوگا بلکہ پیداواری صلاحیت بڑھنے کی وجہ سے روزگار فراہم ہونے لگے گا۔ اسی لئے ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا اندازہ قائم کیا گیا تھا۔

تاہم یہ منصوبہ بناتے ہوئے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ اس عظیم منصوبہ کے لئے سرمایہ کیسے فراہم ہوگا۔ اس بارے میں یہ تصور قائم کرلیا گیا تھا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی ملک کے سارے ’ٹیکس چور‘ دھڑا دھڑ ٹیکس دینا شروع کردیں گے۔ یہ ویسا ہی قیاس تھا جو وزیر اعظم نے ڈیم فنڈ کے لئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کرتے ہوئے حکم نما درخواست کرتے ہوئے قائم کیا تھا کہ ہر شخص کم از کم ایک ہزار ڈالر اس فنڈ میں جمع کروائے۔ خیال تھا کہ اس طرح پانچ چھے ارب ڈالر تو چٹکی بجاتے حاصل ہوجائیں گے اور حکومت اپنے سارے منصوبوں کو آسانی سے عملی جامہ پہنا سکے گی۔

اب وزیر خزانہ انہی ٹیکس چوروں کو جو وزیر اعظم عمران خان کی دیانت سے متاثر ہوکر ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے، ایمنسٹی یا کالا دھن سفید کروانے کی پیشکش کررہے ہیں۔ ماضی میں ایسی کوششیں بارآور نہیں ہوئیں۔ اس لئے اس بار بھی اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود اسد عمر سمجھتے ہیں کہ ’کوشش کرکے دیکھنے میں کیا حرج ہے‘ ۔ شاید اس بار ٹیکس چور دیانت دار حکومت کے بھرے میں آجائیں۔ لیکن وہ یہ سمجھنے اور ماننے سے قاصر ہیں کہ کسی بھی ملک کا سرمایہ دار اعتماد اور بھروسہ کے جس ماحول کا طلب گار ہوتا، اسے فراہمکیے بغیر سرمایہ کاری اور ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔

پاکستان تحریک انصاف نے یہ خبر عام کرکے اعزاز حاصل کیا ہے کہ ٹوئٹر پر عمران خان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 94 لاکھ ہو چکی ہے۔ اس طرح وہ ٹوئٹر معیار کے مطابق دنیا کے مقبول لیڈروں میں نویں نمبر پر ہیں۔ تحریک انصاف اپنے لیڈر کی مقبولیت کا جو پیمانہ سامنے لائی ہے، وزیر خزانہ ملکی معیشت کو جانچنے کے بھی ایسے ہی معیار مقرر کررہے ہیں۔ لیکن اس سے غریب کا بھلا اور معیشت کا احیا ہونا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali