پاکستانیوں کی اپنے ہیرو سے نفرت


محسن امین


\"Mohsin برصغیر کی سرزمین نے بہت سے نامور مقرر پیدا کیے جن میں نواب بہادر یار جنگ اور سید عطااﷲ شاہ بخاری دو نمایاں نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نواب صاحب 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہو ئے اور 1944 میں وفات پائی۔ آپ انگریز مخالف نظریات کے حامل انسان تھے اور اسی وجہ سے آپ نے شہرت پائی۔ آپ نے ایک تقریر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی فطرت میں ایک فرق واضح کیا جس کی شاید اس وقت پوری طرح لوگوں کو سمجھ نہ آئی ہو لیکن آج اُس بات کی افادیت سے کوئی بھی ان کار نہیں کر سکتا۔
آپ فرماتے ہیں کی ہندو بھی بہت فرزانے ہوتے ہیں ان میں جب بھی کوئی لیڈر پیدا ہوتا ہے تو اس کا تقابل وہ اپنے خداؤں سے کرتے ہیں تو اپنے لیڈر کو وہ ہر لحاظ سے ارفع پاتے ہیں اور اس کو سر ان کھوں پر بٹھا لیتے ہیں۔
مثلا، اگر وہ اس کا موازنہ دھرتی ماتا سے کرتے ہیں تو زمین کو پاؤں میں روندا ہوا اور پامال محسوس کرتے ہیں، اگر لیڈر کا مقابلہ وہ گاؤ ماتا سے کرتے ہیں تو اپنے گرو کو اس بے زبان جانور سے ہر لحاظ سے اعلیٰ اور باصلاحیت پاتے ہیں۔ اور اگر اس کا موازنہ وہ اپنے بھگوان سے کرتے ہیں تو اک بے جان پتھر کی بجائے گوشت پوست کا وہ انسان جو ان کی فریاد سن سکتا ہے اور اس کا جواب دے سکتا ہے۔ وہ اسے \’\’مہاتما\’\’ بنا لیتے ہیں اور مندر میں اپنے خدا کے مقابل رکھ کر اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور اس سے وہ کام بھی نکلوا لیتے ہیں جو وہ اپنے خدا سے بھی نہیں نکلوا سکتے۔

\"jinnah-2.jpg-ns\"

دوسری طرف ہم مسلمان ہیں جو ایک اچھے بھلے لیڈر کو اسوۂ رسولﷺ اور خلفائے راشدین کے معیار پر پرکھتے ہیں اور اس اعلی ترین معیار پر ان کو کمتر پا کر قائداعظم کو بھی \’\’کافراعظم\’\’ بنا کر رکھ دیتے ہیں حالانکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا نے قائداعظم سے نہایت کم درجے کے لیڈروں سے بھی بڑے بڑے کام لیے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد تو لیڈروں کی اس بے قدری کا احساس مزید شدت کے ساتھ ہوتا ہے، معاشی لحاظ سے صرف دنیا صرف دو نظریات کو جانتی تھی ایک کو کیپیٹلزم کہتے ہیں تو دوسرے کا نام سوشلزم تھا۔ ایک تیسرا نظریہ جس کا نام اسلامی سوشلزم تھا۔ یہ اسلام اور سوشلزم کا ملغوبہ تھا اور جس کی وجہ سے اک دنیا پریشان تھی کہ یہ نظریہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا تھا جس کے خالق نے امت مسلمہ کا تصور دیا ہم نے اس نظریے کے خالق بھٹو کو تختۂ دار پرہی لٹکا دیا۔

\"dr-abdus-salam-e1343824487256\"

جب ہم سائنس کے میدان میں نظر دوڑائیں تو پاکستان میں ہمیں ڈاکٹر عبدالسلام نظر آتے ہیں جن کی خدمات کو پوری دنیا میں پزیرائی ملی اور دنیا نے انہیں نوبل انعام سے نوازا۔ جب کہ اپنوں کی ستم ظریفی دیکھیں کہ قوم کو اپنے اس ہونہار سپوت کی محنت میں بھی یہود و ہنود کی سازش نظر آئی اور ہم نے اسے ملک بدر کر دیا اور وہ مرتے دم تک اپنوں کو سسکتا رہا۔ جب کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسلمان سائنسدان عبدالکلام کو ہندوؤں نے اپنے تمام تر مذہبی اختلافات کے باوجو ہندوستان کے سب سے بڑے اعزاز \’\’بھارت رتن\’\’ کے علاوہ پدم بھوشن جیسے اعزازات سے نوازا۔ حالانکہ ان کی خدمات کے عوض دنیا نے ان کو نوبل پرائز بھی نہیں دیا لیکن ان کے اپنے وطن کی عوام نے ان کو اپنے ملک کا صدر منتخب کر لیا۔

\"malala-United-Nations-2\"

اگر یہ مان لیا جائے کہ اس وقت ہماری قوم کو شعور نہیں تھا تو ہماری روش اب بھی پہلے سے قطعی مختلف نہیں ہے۔ قوم کی وہ بیٹی جسے دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ وطن کی گلیوں کو ترس رہی ہے۔ مقدر کی ستم ظریفی تو دیکھیں جس کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے یہود و نصاریٰ جس پر اپنی دولت لٹا رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ ہر فورم پر جا کر صرف پاکستان کے نام کا ڈنڈھورا پیٹتی ہے ہم اسے ملک میں عزت کی زندگی بھی نہیں دے سکتے۔ \’\’خوف و دہشت کے اس ماحول میں قبروں پر پھول چڑھانے کی ایسی لت لگ چکی ہے کہ عافیہ صدیقی تو نظر آتی ہے لیکن ملالہ یوسفزئی جو نظر کے سامنے ہے نظرہی نہیں آتی۔

نظر اسی سال پر ڈالیں تو نرگس ماولوالہ کا نام ذہن میں آتا ہے اور میرے جیسے کچھ پاگل قوی امید سے ہیں کہ شاید اس سال فزکس میں نوبل انعام پانے والوں میں اس دُختر پاکستان کا نام بھی ہو۔ جب کہ علمائے کرام ایسی وجوہات ڈھونڈ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ثقلی موجوں کی دریافت پر یقین رکھنے والوں کے نکاح ٹوٹیں گے۔ اور میڈیا کے دانشور اس تمام دریافت میں سے تا حال امریکہ اور مغرب کی سازش ڈھونڈ رہے ہیں۔

\"Nergis-Mavalvala\"

پریشانی کی بات یہ ہے کہ جس طر ح نرگس ماولوالہ کی طرح کے ذہین دماغ ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں قومی ہیروز کی اس طرح کی ناقدری کے بعد کون اس ملک میں رہنا پسند کرے گا۔ یہ ناقدری والے حالات ذہنی خلا یعنی\’\’برین ڈرین\’\’ کا پیش خیمہ ہیں جن حالات میں اچھے اچھے دماغ ملک سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ اچھے اچھے دماغ کسی بھی ملک کے لیے اﷲ کا عطیہ ہوتے ہیں۔ اور جب ہم ان تحائف کی قدر نہیں کریں گے تو قدرت کفران نعمت والے روّیے کو آخر کب تک برداشت کرے گی۔ غور کریں تو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملا تو ساری پاکستانی قوم اس بات پر زور دے رہی تھی کہ عبدالستار اس انعام کے زیادہ حقدار تھے۔ اور اب جب ساری قوم اس فرشتہ صفت انسان کو عزت و تکریم دے رہی ہے کچھ بد خوُ حضرات اب بھی یہ نفرت آمیز راگ الاپ رہے ہیں کہ \’ایدھی حرامیوں کا باپ ہے، ایدھی قادیانیوں کے بچوں کو پالتا تھا اس لیے وہ کافر تھا\’۔

قرآن میں اﷲ پاک کا ارشاد ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلّت دیتا ہے۔ اور یہ آیت کم از کم قرآن پاک کی وہ آیت ہے جس پر کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ باوجود اس آیت پر مکمل ایمان کے ہم سب پاکستانیوں نے قائداعظم، ڈاکٹر عبدالسلام، ملالہ یوسفزئی اور عبدالستار ایدھی سمیت ان تمام لوگوں پر اعتراض کیا جن کو اللہ نے پوری دنیا میں عزت و تکریم دی۔ اور مذکورہ بالا آیت کا عملًا صریح انکار کیا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی شخصیت پرست قوم ہیں لیکن میرے نزدیک تو آج تک ہم نے کسی ذہین اور علمی شخصیت کی پرستش بھی نہیں کی ہے۔ ہم نے ہمیشہ جہلاء اور جاہلیت کی پرستش کی ہے ورنہ علم کا تو مقصد ہی انسانیت کی بقا ہے۔ خودکش بمبار تیار کرنے والا عالم ہونے کا دعویدار کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کے پاکستان میں عالم کا لفظ انسانیت کو بچانے والے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے دشمنوں کے لیے بولا جانے والا لفظ ہے۔ ہم بعض انتہا پسند ملاؤں کی پیروی تو آسانی سے کر لیتے ہیں لیکن جو انسانیت کو بچانے والے ہیں ان کو کافر کافر کہہ کر دھتکار دیتے ہیں۔

من حیث القوم تماش بینی ہمارا محبوب مشغلہ ہے اورتماش بینی چونکہ جز وقتی اور شغل کا کام ہے اس لیے زندگی میں بھی ہم ایسے مختصر دورانیے کے کام ہی پسند کرتے ہیں۔ مثلاً خودکش دھماکہ کر کے جنّت حاصل کرنے میں چند ثانیے درکارہوتے ہیں اور یہ ایسا کام ہے جس میں شہید کا لقب آسانی سے مل جاتا ہے یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ اس کے برعکس سائنسدان بن کرانسانیت کی خدمت کرنے میں عمریں بیت جاتی ہیں اور کیا خبر کہ اس کے بعد بھی نام پیدا ہو یا نہ ہو اب کون اتنا لمبا اور غیر یقینی راستہ اختیار کرے۔ سارے لوگ ایدھی جیسے پاگل تھوڑی ہوتے ہیں۔ اور ابھی تک

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

گو کہ راستہ دشوار ہے لیکن میرے جیسے کچھ لوگوں کے ہیرو آج بھی قائداعظم، ڈاکٹر عبدالسلام، عبدالستارایدھی، ملالہ اور نرگس ماولوالہ جیسے لوگ ہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments