ڈونلڈ ٹرمپ کیوں مقبول ہے؟


\"drڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی سیاست میں مقبولیت خود امریکی دانشوروں اور پنڈتوں کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں روزانہ کی بنیاد پر ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں سن کر کئی بار ٹی وی اینکروں اور تبصرہ نگاروں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر متوازن بیانات کی بناء پر پچھلے کئی مہیںوں سے تقریباً ہر روز یہ پیش گوئی کی جاتی رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کسی بھی وقت ختم ہونے والی ہے۔ لیکن ہر دفعہ یہ اندازے غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جو باتیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہی ہیں ان میں سے کوئی ایک بات بھی کوئی اور امیدوار کرتا تو شاید کب کا الیکشن مہم سے باہر ہو چکا ہوتا۔ لیکن ٹرمپ میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اس کے حامی ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور کئی پہلوؤں سے اس پر سیر حاصل گفتگو بھی ہو چکی ہے۔ لیکن راقم کے خیال میں اس تمام بحث کا ایک پہلو ایسا ہے جو ٹرمپ کی نسل پرستانہ باتوں کی وجہ سے نہ تو امریکی میڈیا میں کوئی نمایاں جگہ پا سکا ہے اور نہ ہی میں نے اردو میڈیا میں اس کا کوئی خاص تذکرہ سنا ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سال 2009 میں واپس جانا ہو گا۔ اس سال صدر اوباما نے اس عالم میں حلفِ صدارت اٹھایا جب امریکی معیشت کو 1930 کے عظیم مالی بحران جیسے حالات کا سامنا تھا۔ کار بنانے والی تین بڑی کمپنیاں تقریباً دیوالیہ ہو چکی تھیں۔ جگہ جگہ فیکٹریاں، کاروبار حتی کہ پرائیویٹ سکول اور کالج تک بند ہو رہے تھے۔  بے روزگاری کی شرح اپنی ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ ایک عجیب افراتفری کے حالات تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت پبلک ریڈیو NPR سے روزانہ ایسی کہانیاں نشر ہوتیں جنہیں سن کر اچھا خاصا آدمی مایوس اور پریشان ہو جاتا۔ لیکن آج آٹھ سال بعد حالات یہ ہیں کہ سٹاک مارکیٹ اپنی تاریخی بلندی پر ہے۔ 2015 میں امریکہ میں تقریباً 17 ملین گاڑیاں فروخت ہوئیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اسی طرح بےروزگاری کی شرح میں ریکارڈ کمی آئی ہے۔ ان سب چیزوں کو دیکھا جائے تو براک اوباما حالیہ تاریخ کے سب سے کامیاب صدر کہلائے جاسکتے ہیں۔ لیکن امریکی معاشرے کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ اعداد و شمار محض ایک دھوکہ ہیں اور اس بظاہر خوش حالی کا فائدہ ان کی بجائے کسی اور پہنچا ہے۔ یہ طبقہ نسبتا کم پڑھے لکھے سفید فام کارکنوں کا طبقہ ہے۔

اتفاق سے میرا اس طبقے سے کسی نہ کسی طرح تعلق رہا ہے۔ میں اگرچہ تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہوں مگر جس کمپنی میں کام کرتا ہوں\"edit\" وہ کئی فیکٹریاں بھی چلاتی ہے اور اس میں کام کرنے والے کارکنوں اور ان کے سپر وائزروں سے میرا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ میری لیب میں بھی ایسے لوگ کنٹریکٹ پر ہمارے ساتھ کام میں مدد دینے آتے ہیں۔ میں 2009 کے مالی بحران کے دنوں میں ایک کار کمپنی سے ہی وابستہ تھا اور وہاں میرا اس طبقے کے افراد سے ذاتی تعلق بھی رہا ہے۔  یہ لوگ انتہائی جفا کش اور ایماندار ہیں۔ یہ اپنے آپ کو اصل امریکی سمجھتے ہیں، چرچ جاتے ہیں اور اپنے زور بازو سے اپنی روزی کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ حکومتی قوانین کو اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت تصور کرتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لئے پولیس پر انحصار کرنے کی بجائے خود ہتھیار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ \’حکومت کا کوئی حق نہیں کہ میری ذاتی زندگی میں دخل دے\’۔ یہ جملہ آپ کو ان لوگوں سے اکثر سنائی دے گا۔

آپ ان لوگوں سے بات کریں تو مختلف لفظوں میں ایک شکائت عام سننے میں ملے گی۔ \’حکومت میرے ٹیکس کے پیسے لے کر دوسرے کاہل لوگوں پر ویلفئیر کے نام پر خرچ کرتی ہے۔\’ \’میں یہ نوکری چھوڑ کر اگر چند یتیم بچے گود میں لے لوں تو کچھ کئے بغیر حکومت سے ویلفئر کے نام پر اس نوکری سے زیادہ حاصل کر سکتا ہوں۔\’ \’آپ گروسری سٹور پر جائیں تو سامنے قطار میں کوئی نہ کوئی شخص ویلفئیر کارڈ پر اتنا سامان خرید رہا ہوگا جو میرے جیسا نوکری پیشہ پورا ہفتہ کام کرکے نہیں خرید سکتا۔\’ گویا امریکی معاشرے کا یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ حکومت اس کا استحصال کر رہی ہے۔ اس کی جیب سے پیسہ نکال کر غریبوں، بے روزگاروں اور اقلیتی برادریوں کی فلاح بہبود پر کام کرتے ھے۔ ان لوگوں کے خیال میں یہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

اگر آپ ان لوگوں سے مزید گفتگو کریں تو یہ لوگ دبے دبے الفاظ میں دوسری نسلوں کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔ میری بلڈنگ کا \"NEWسپروائیزر ایک دن مجھ سے کہنے لگا۔ \’مجھے غلط مت سمجھنا۔ میں نسل پرست نہیں ہوں۔ لیکن اگر آپ کسی افریقن امیریکن کے گھر جائیں تو ایک ایک گھر میں دس دس سوشل سیکیورٹی کارڈز ملیں گے۔ یہ جعلی کارڈ بنوا کر بے روزگاری الاوئنس لے آتے ہیں اور مجھ سے بہت بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔\’ ایک ٹیکنیشن کہتا ہے کہ \’میکسکو سے یہ لوگ چلتے ہیں۔ آرام سے بارڈر پار کرکے اگلے دن ویلفئیر کے دفتر کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔ حکومت ہماری جیب سے پیسہ نکال کر ان لوگوں پر خرچ کرتی ہے۔\’ میرے دفتر میں کام کرنے والا ایک اسسٹنٹ جو ایک کسان بھی ہے مجھ سے کہنے لگا کہ \’اس ملک میں کچھ تو ہے جو ساری دنیا یہاں آنا چاہتی ہے۔ آپ بھی تو یہاں کام کرکے معاوضہ لیتے ہو۔ لیکن ہم لوگ محنت کر کے جو بناتے ہیں وہ ہماری حکومتیں ٹیکسوں کے نام پر ہم سے ہتھیا لیتی ہے اور ان کاہلوں، کام چوروں پر ویلفئیر کے نام پر خرچ کردیتی ہیں۔\’ ایک نسبتاً زیادہ پڑھا لکھا دوست کہنے لگا۔ \’قانون کے مطابق ہر ہسپتال ایمرجنسی میں آنے والے ہر شخص کا علاج کرنے کا پابند ہیں، چاہے وہ پیسے دے یا نہ دے۔ یہ لوگ انشورنس نہیں خریدتے۔ جب بیمار ہوتے ہیں ہسپتال کی ایمرجنسی میں چلے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ میں انشورنس کارڈ لے کر بھی کئی گھنٹے ایمرجنسی میں انتظار کرتا رہا اور غیر قانونی طور پر یہاں وارد لوگ آرام سے اپنے معمولی بخار، کھانسی کا علاج کروا رہے تھے۔\’

یہ بات نئی نہیں ہے اور ریپبلکن پارٹی گذشتہ کئی الیکشنوں سے اس ایشو کی بنیاد پر الیکشن لڑتی رہی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ نسلی   اقلیتوں سے دور ہوتی رہی ہے۔ گذشتہ الیکشن میں صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو ایک نجی محفل میں کی گئی خفیہ وڈیہ سامنے آنے پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ملک کی تقریباً 47 فیصد آبادی حکومت کے کسی نہ کسی ویلفئیر پروگرام پر انحصار کرتی ہے۔ لیکن بعد میں فوربز کے ایک آرٹیکل کے مطابق حالات حقیقت میں اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔2013 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ کی پینتیس ریاستوں میں ویلفئیر کی رقم اس ریاست کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے زیادہ تھی۔ یعنی کسی فیکٹری میں مزدوری کرنے کی بجائے اگرآپ بے روزگار ہیں تو زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ویلفئیر کے پروگراموں کی انسانی ہمدردی کے نام پر سیاست کرتی ہے جب کہ ریپبلکن پارٹی ان سفید فام کارکنوں کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہوئے ان پروگراموں کی مخالفت کرتی \"don\"ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ صورتِ حال ان لوگوں کے نزدیک مزید بدتر ہوئی لہٰذا ریپبلیکن پارٹی سے بھی یہ لوگ مایوس ہونے لگے اور وہ لوگ جنہیں یہ اپنے حلقوں سے منتخب کر کے واشنگٹن بھیجتے تھے ان کے بارے میں اس طبقے میں ایک شدید قسم کا غصہ اور شکایت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے الیکشنز میں کئی نئے امیدوار صرف اس واسطے منتخب ہوئے کہ وہ واشنگٹن والوں کے لئے نئے ہوں۔ ان لوگوں کے لئے ایک مخصوص اصطلاح \’واشنگٹن آوٹ سائڈر\’ استعمال ہوتی ہے اور اسکی ایک بڑی مثال ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز ہیں۔

ان تمام معاملات میں شدت تب پیدا ہوئی جب براک اوباما نے یونیورسل ہیلتھ کئیر سسٹم پیش کیا۔ اس سسٹم کو طنزاً اوباما کئیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس نئے سسٹم کے تحت انشورنس کمپنیوں پر کئی پابندیاں لگائی گئیں۔ اور کئی غریب لوگوں کو جو پہلے انشورنس نہیں خرید سکتے تھے، علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوئیں۔ لیکن اس اضافی خرچ کو پورا کرنے کے لئے امریکا کے ہر شہری پر لازمی قرار دیا گیا کہ وہ ھیلتھ انشورنس خریدے۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ نوجوان لوگ آئے جو اس سے پہلے انشورنس حاصل کرنی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ جوان آدمی کو ڈاکٹر کے پاس کم ہی جانا ہوتا ہے۔ میری لیب میں کام کرنے والے ایک نوجوان کو پچھلے سال پہلی دفعہ انشورنس خریدنی پڑی جو اچھی خاصی مہنگی تھی۔ یہ پہلے براک اوباما کو بہت پسند کرتا تھا لیکن اب کہنے لگا کہ \’میں پوری عمر ان گھٹیا سیاستدانوں کو ووٹ نہیں دونگا۔ میں پچھلے کئی سال سے ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا اور شاید اب بھی نہ جاؤں۔ میرے پیسوں سے یہ ان لوگوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے۔\’  وہ لوگ جو پہلے سے انشورنس یافتہ تھے اُن کے ماہانہ پریمیم میں بھی اس قانون کے تحت اضافہ ہوا۔ اگرچہ اوبامہ کے حامی دانشور اس اضافے کو غیر معمولی نہیں سمجھتے لیکن بہرحال ہیلتھ انشورنس کے نام پر اس نئے ٹیکس نے بہت سارے لوگوں کو تلخ بنا دیا ہے۔ \’میرے پیسوں سے یہ لوگ ان میکسیکن، ان باہر سے آنے والے لوگوں کو امداد دے رہے ہیں۔ واشنگٹن میں بیٹھے ان سیاستدانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میری جیب میں ڈاکہ ڈالیں۔\’

امریکہ کا یہ طبقہ ان تمام باتوں پر بہت غصے میں ہے۔ یقیناً ان میں سے کئی لوگ نسلی تعصب کا شکاربھی ہیں لیکن اکثر لوگ دوسری نسلوں \"donald-trump-smiling\"کے لوگوں سے ویلفئیرپروگراموں کی ہی وجہ سے معاشی شکایات رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں غلط یا درست عام تاثر یہ ہے کہ ویلفئیر کے پروگراموں سے سفید فاموں کی بجائے دوسری نسلیں زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو غیر قانونی طریقوں سے امریکہ میں وارد ہوگئے ہیں۔ اور سیاستدان ان \’کاہل\’ لوگوں کے ووٹ لینے کی خاطر ان کی جیبوں پر مسلسل ڈاکہ مار رہے ہیں۔ اس عالم میں ایک شخص جو سیاستدان نہیں ہے، اور ایک عام امریکی کی نظر میں کامیاب بزنس مین ہے، جو انہی کی طرح بغیر لگی لپٹی رکھے سیدھی بات کرتا ہے چاہے کسی کو کتنا برا لگے، کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے۔

\’پوری دنیا ہمیں بے وقوف سمجھتی ہے۔۔۔ میکسیکو اپنے بے کار لوگ یہاں بھیج دیتا ہے۔ ۔۔ میکسیکو سے آنے والے لوگ جرائم پیشہ ہیں۔۔۔ ریپسٹ ہیں۔۔۔ قاتل ہیں۔۔۔ دوستو، یہ ملک تب ہی بچ سکتا ہے جب ہمارا کوئی بارڈر ہو۔۔۔ یہ سیاستدان نہیں چاہتے کہ ہمارے اور میکسیکو کے درمیان کوئی دیوار ہو۔۔۔ یہ دیوار میں بناؤں گا اور اسے بنانے کے پیسے بھی میکسیکو سے لوں گا۔\’

تو پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ ایسا شخص اس نسبتاً کم پڑھے لکھے سفید فام کارکنوں کے طبقے کی توجہ اور حمایت حاصل نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments