خوفزدہ لوگ اور جشن آزادی !


آج کل پاکستان کے ہر شہر اور قصبے کو ایک خوف کی لہر نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے بچوں کے اغوا کے واقعات کچھ اس تواتر سے وقوع پذیر ھوئے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں، ایک عجیب سی بےبسی اور عدم تحفّظ کا جان لیوا احساس والدین کو ہر پل بے چین رکھتا ہے اندازہ کریں راتوں کو ڈاکوؤں کا خوف دن کو بچے اغوا کرنے والوں کا خوف اور اگر کہیں باہر نکلیں تو دہشت گردوں کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے، ریاست کے تمام ادارے اس ملک میں رہنے والوں کو تحفّظ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں.

اور پھر یوم آزادی بھی قریب ہے جس کا الیکٹرانک میڈیا بہت زور سے ڈھول پیٹ رہا ہے کاش کوئی یہ تو بتلاے کہ گھروں میں قید بھوک و افلاس کے مارے ہوے دہشت زدہ لوگ کس آزادی کا جشن منائیں. کیا ہمارے بزرگوں نے پاکستان بناتے ہوے ایسی ہی آزادی کا خواب دیکھا تھا؟

حبیب جالب مرحوم نے کہا تھا ،

ہر شام یہاں شام ویران

آسیب زدہ رستے گلیاں

جس شہر کی دھن میں نکلے تھے

وہ شہر دل برباد کہاں

صحرا کو چمن بن کو گلشن

بادل کو ردا کیا لکھنا

قدرت کی بیشمار نعمتوں سے سرفراز یہ ملک کسی جنّت سے کم نہیں تھا شاعروں نے اس کی خوبصورت وادیوں اس کے لہلہاتے کھیتوں دریاؤں کوہساروں ساحلوں اور صحراؤں پر نغمات لکھے جن کو اسی سرزمین کے مغنیوں نے گا کر امر کردیا. آج بھی یہ نغمات سنیں تو سرور و انبساط کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے . عبید اللہ علیم مرحوم نے کہا تھا ،

کبھی رحمتیں تھی نازل اس خطہ زمیں پر

وہ ہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتررہے ہیں

آج کا پاکستان قائد اعظم یا علامہ اقبال کا پاکستان نہیں ہے اگر قائد اعظم آج زندہ ہوتے تو خون کے آنسو رو رہے ہوتے، جشن تو ہوتا ہے خوشیوں کا گزشتہ 70 سالوں میں کیا کیا نہیں کھویا ہم نے آدھا ملک کھودیا جو باقی بچا ہے اسے دہشت گردوں کا اڈا بنادیا آج ساری دنیا میں ہماری پہچان دہشت گردی کے حوالے سے ہوتی ہے.

20 کروڑ کی آبادی پر مشتمل یہ ملک لسانی، مذہبی ، سیاسی گروہ بندی کا بری طرح شکار ہے لوگوں میں رواداری مفقود ہوچکی ہے اقلیتوں کی بات تو ایک طرف مسلمان دوسرے مسلمان کوعقاید پر اختلاف کی وجہ سے قتل کردیتا ہے.

ہمارا معاشرہ انحتاط کی پست ترین سطح پر پنہچ چکا ہے. اخلاقیات کا اندازہ لگائیں کہ مردہ جانوروں کا گوشت اور حرام جانوروں کا گوشت حلال کے نام پر فروخت ہو رہا ہے، جعلی ادویات کئی گھرانوں کے چراغ گل کرچکی ہیں، حرام و حلال کی تمیز ختم ہوچکی ہے.

جب ہم اپنی قوم کا تقابل دوسری قوموں کے ساتھ کرتے ہیں تو انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کے گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے صرف پستی کی جانب ہی سفر کیا ہے جبکہ کم و بیش اسی عرصے میں جو شاندار معاشی اور سماجی ترقی جاپان کوریا اور چین نے کی ہے، اس پر فخر کا اظہار نہ صرف یہ تین ممالک بلکہ سب ایشیا کرتا ہے. آج اقوام عالم میں ان ممالک کوکلیدی حیثیت حاصل ہے. ان ممالک کی ترقی کا راز نہ صرف یہ کے لیڈرشپ کا کمال بلکہ ان قوموں کی شبانہ روز محنت دیانت داری سے اپنے فرایض کی بجاآوری سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں کمال جوش و جذبے اور سخت محنت میں پنہاں ہے.

ترقی کے اس دور میں اگر آپ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہندوستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے یقیناً اسکے مسایل بھی بڑے ہیں لیکن ہندوستان نے تعلیم کے شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بیمثال ترقی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے آج یوروپ اور امریکا سے لوگ علاج کروانے انڈیا آتے ہیں امریکا اور مغربی ممالک سے لوگ اپنے بچوں کو علیٰ تعلیم کیلیے ہندوستان بھیج رہے ہیں. ہندوستان کو اسکی ترقی مبارک.

لیکن جو بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کو بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلنا چاہیے۔ ہمیں بھی بحیثیت قوم اپنی اصلاح کرنا ہوگی، ہمارے ملک کو دہشت گردی سے پاک ہونا چاہیے مذہبی جنونیوں سے چھٹکارا پانا ہوگا، تعلیم کا یکساں نظام نافذ کرنا ہوگا، ہمیں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ہماری حکومت کو ان دو شعبوں میں اپنے بجٹ کا کم از کم 40 فیصد مختص کرنا چاہیے کیونکہ میٹرو بسیز یا میٹرو ٹرینز جہالت کو دور نہیں کرسکتے علم کے بغیر اس ترقی کی دوڑ میں آپ بہت پیچھے رہ جایئں گے. آپ 70 سال سے اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں اور اس کو مکمل طور پر قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل کردیا گیا ہے. اب خدارا اس سوچ کو تبدیل کیجیے کیونکہ خطرہ آپ کو اس ملک کے اندر سے ہے باھر سے نہیں خطرہ آپ کو انہی قوتوں سے ہے جن کی سالہاسال آپ نے پرورش کی ہے.

اب شاید 70 سال کے بعد ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ غلطیوں کا اعتراف کیا جائے قومی وسایل کو اسی قوم کی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے، پاکستان کی سب اکائیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے جو وسایل جس صوبے کی ملکیت ہوں سب سے پہلا حق انہی کا تسلیم کیا جائے، رنگ و نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہ برتی جائے سب کو بلا امتیاز پاکستانی سمجھا جائے، دستور پاکستان میں جو انسانی حقوق پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں ان کی پاسداری کی جائے.

اگر کوئی فرد یا جماعت دہشت گردی میں یا کسی اور خلاف قانون و آئین ملوث پائے جائیں تو ریاست کو قانون اور ضابطے کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے. ریاست کو کوئی اقدام ماورائے آئین و قانون نہیں اٹھانا چاہیے، ریاست کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ لوگوں کو اٹھا کر غائب کردے یا انہیں ماورا ی عدالت قتل کردے.

سیاسی جماعتوں کو توڑنے یا تشکیل دینے کے کھیل سے مقتدر قوتوں کو اب نکلنا ہوگا. جمہوریت کی گاڑی کو چلنے دیجیے جمہوری نظام حکومت سے ہی دنیا بھر کے ملکوں نے ترقی کی ہے، یقیناً پاکستان کے عوام کا حق انتخاب جس کے بھی حق میں ہوگا وہ ہی بہتر ہوگا اور ہمیں اس مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا اور پھر ہم جشن آزادی منانے کے صحیح حقدار ہوں گے۔

رانا امتیاز احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا امتیاز احمد خان

رانا امتیاز احمد خاں جاپان کے ایک کاروباری ادارے کے متحدہ عرب امارات میں سربراہ ہیں۔ 1985 سے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے جاپان اور کیلے فورنیا میں مقیم رہے ہیں۔ تاہم بحر پیمائی۔ صحرا نوردی اور کوچہ گردی کی ہنگامہ خیز مصروفیات کے باوجود انہوں نے اردو ادب، شاعری اور موسیقی کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ہے۔ انہیں معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور تازہ ترین حالات پر قلم اٹھانا مرغوب ہے

rana-imtiaz-khan has 22 posts and counting.See all posts by rana-imtiaz-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments