پی ٹی ایم کے بارے میں عمران خان کے خیالات اور حقائق


وزیراعظم عمران خان نے قبائلی عوام کے جلسۂ عام میں پی ٹی ایم کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، انہوں نے اس اَمر پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ پی ٹی ایم کے مطالبات اپنے اندر وزن رکھتے ہیں اور وہ ان حقائق کا کھلم کھلا اظہار ہیں جو اہل وطن سے پوشیدہ ہیں یا ان کو دانستہ پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

عمران خان نے مقہور و مظلوم پشتونوں کی ترجمانی کرنے والی جماعت ”پشتون تحفظ موومنٹ“ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: ”پی ٹی ایم پشتونوں کی تکلیف کی بات کرتی ہے، قبائلیوں کی تکلیف کی بات کرتی ہے، وہ ٹھیک بات کرتی ہے، یہ وہی باتیں ہیں جو میں پندرہ سال سے کر رہا ہوں۔“ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”بات وہ ٹھیک کرتے ہیں لیکن جس طرح کا لہجہ وہ اختیار کر رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے، جو لوگ تکلیف سے گزرے ہیں، انھیں اپنی فوج کے خلاف کرنا ٹھیک نہیں۔ “ انھوں نے مزید ارشاد فرمایا کہ ”میں پوچھتا ہوں لوگوں کو فوج اور پاکستان کے خلاف کرنے سے کیا فائدہ ہو گا، اصل چیلنج یہ ہے کہ لوگوں کو بحال کرنا ہے نہ کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا اور کوئی حل نہ پیش کرنا۔ “

مسئلہ یہ ہے کہ پختونوں کی تکلیف کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے، پی ٹی ایم کے مطالبات کو فوج کی طرف سے بھی صحیح مانا گیا ہے، منظور پشتین کو اپنا بچہ بھی کہا گیا ہے، ان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا جاتا ہے لیکن ان کے مسائل کوئی حل نہیں کرتا، ان کی مشکلات ختم کرنے کے لئے عملی قدم کہیں سے بھی نہیں اٹھتا، انھیں محض وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے انھیں تھکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے، وقت گزرنے پر ان پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے لیکن جب کبھی پی ٹی ایم کا کوئی نیا بڑا جلسۂ عام منعقد ہوتا ہے تو ان سے مذاکرات کے لئے نئے سرے سے رابطے شروع کیے جاتے ہیں جن کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان پھر بھی نہیں ہوتا۔

عمران خان نے پی ٹی ایم کے لہجے کو ہدف تنقید بنایا ہے تو عرض ہے کہ ذرا ان لوگوں سے پوچھئے جن کے پیارے طالبان کے خلاف فوجی آپریشنوں کے دوران بے دردی سے مارے گئے ہیں۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے گھرانے کے تیرہ افراد ہلاک کیے گئے ہیں، ان کا گھر، مارکیٹ اور تجارتی مرکز ملبے کا ڈھیر بنایا گیا ہے۔ جب کسی کا گھر اور کاروبار تباہ ہوتا ہے، ان کے پیاروں کو بے دردی سے جرم بے گناہی میں قتل کیا جاتا ہے تو ان سے آپ کس لہجے کی توقع کرسکتے ہیں؟

سوات اور وزیرستان میں فوجی آپریشنوں میں جو بے اعتدالیاں کی گئی ہیں، ان کا نتیجہ تو برآمد ہونا ہی تھا جو پی ٹی ایم کی شکل میں ملک کے طول و عرض میں ایسے نعروں کے ساتھ سامنے آرہا ہے جسے اب ہر مظلوم اپنا رہا ہے۔ اس کی گونج وزیرستان، پشاور، سوات، کراچی، لاہور اور کوئٹہ کے علاوہ ہر اس جگہ سنائی دیتی ہے جہاں دہشت گردی کا کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے۔

عمران خان نے اپنے جلسے میں یہ بھی پوچھا ہے کہ ”لوگوں کو فوج اور پاکستان کے خلاف کرنے سے کیا فائدہ ہوگا، اصل چیلنج یہ ہے کہ لوگوں کو بحال کرنا ہے نہ کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا اور کوئی حل نہ پیش کرنا۔ “ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو فوج کے خلاف کس نے کیا ہے۔ پی ٹی ایم نے تو لوگوں کو صرف پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ اس کے جلسوں میں بچے، بچیاں، خواتین اور بوڑھے اپنے گم شدہ پیاروں کی تصاویر اٹھائے ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان میں وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں جن کے پیارے فوجی آپریشنوں کے دوران مارے گئے ہیں، ان کے گھر تباہ کر دیے گئے ہیں، ان کے تجارتی مراکز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ وہ لوگ تو ظلم و بربریت کی چکی میں پستے رہے ہیں، وہ اگر جلسوں میں اپنا دکھ بیان کرتے ہیں، اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں اور اگر ان کے لہجے میں تلخ آمیز حقیقت شامل ہوجاتی ہے تو ان کے دکھ کو سمجھنا چاہیے، ان سے ہمدردی کرنی چاہیے اور ان کی اشک شوئی کا ریاستی سطح پر بندوبست کرنا چاہیے۔ ان کے زخموں پر پھاہا رکھنا اور ان کے مسائل حل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے یا جس نے بھی ظلم کیا ہے، اسے اپنی غلطیاں تسلیم کرکے ان کے مسائل کو حل کر کے ان کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیے۔

پی ٹی ایم کے جلسوں میں سکیورٹی اداروں کو براہ راست اس لئے مخاطب کیا جاتا ہے کہ فوجی آپریشنوں، چیک پوسٹوں اور سرچ آپریشنوں میں بے گناہ عوام کے ساتھ نہایت ہتک آمیز، ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ چوں کہ ان تمام مسائل اور مشکلات کا تعلق براہ راست جی ایچ کیو سے ہے، اس لئے پی ٹی ایم میں حکومت کی بجائے سکیورٹی اداروں سے گلے شکوے کبھی نرم اور کبھی جارحانہ انداز میں کیے جاتے ہیں۔ پی ٹی ایم کے مشران اگر اپنا لہجہ حقیقت پسندانہ اور جارحانہ نہ اپناتے تو ان کی بات کوئی نہ سنتا۔

سوات اور وزیرستان میں جو غیر معمولی ریاستی بے اعتدالیاں کی گئی ہیں، وہ کبھی منظر عام پر نہ آتیں اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں نے جو ڈیڑھ دو سو بے گناہوں کو رہا کردیا ہے اور متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر چیک پوسٹوں کا خاتمہ کرکے اپنا رویہ کچھ بہتر بنایا ہے، تو وہ بھی ممکن نہ ہوجاتا۔

اب جب کہ فوج اور حکومت دونوں اس بات پہ متفق ہیں کہ وزیرستان میں زیادتیاں ہوئی ہیں اور پی ٹی ایم کے مطالبات درست ہیں تو پھر وہ کون سا اَمر مانع ہے کہ حکومت اور فوج مل کر ان مطالبات کو عملاً تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اس وقت باہم مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل با آسانی نکالا جاسکتا ہے لیکن جتنا وقت گزرتا جائے گا، یہ مسائل مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔

اگر کسی ریاستی ادارے نے غلطیاں کی ہیں، اپنے ہی بے گناہ اور معصوم عوام کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے تو اسے اپنی غلطیاں تسلیم کرکے ازالہ کرنا چاہیے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ میڈیا پر پی ٹی ایم کے جلسوں کو دکھانے پر پابندی عائد کرکے، انھیں ٹاک شوز میں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہ دے کر، اخبارات میں ان کا بلیک آؤٹ کرکے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پر زور مہم چلا کر انھیں ملک دشمن اور غدار قرار دے کر لوگوں کو ان سے متنفر کیا جائے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس طرح وہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش توضرور کریں گے، اس سے ان کی اَنا کی تسکین بھی ضرور ہوگی لیکن مستقبل میں وہ ریاست کے لئے بے پناہ مسائل اور مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).