منہ چھپانا ہی کافی نہیں


جس کی وجہ سے اس پر اعتراض کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے آسٹریلیا کی ام جمال الدین نے نقاب اوڑھ لیا ہے اور اپنے بیٹے کی نسبت سے پکاری جاتی ہیں۔ اس کے باوجود اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سب کافی نہیں ہے۔ اسے ایک قدم اور بڑھ کر اپنی آنکھیں بھی چھپانا ہوں گی۔ اگر وہ آنکھیں بھی چھپا لے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اسے منظر عام سے مکمل طور پر غائب کرکے ہی مطمئن ہو ں گے۔ اسی وجہ سے جب عورت ٹوپی والا برقعہ پہن کر گھر سے نکلتی ہے تو اس کے ننگے ٹخنوں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ جب کبھی عورتوں، بچوں اور جانوروں پر جنسی مظالم ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ ان عورتوں پر الزام لگاتے ہیں جو سر اور منہ کو چھپا کر نہیں رکھتیں اور بقول ان کے وہ معاشرے میں فحاشی پھیلاتی ہیں جس کی وجہ سے مرد جنسی جرائم پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

عورت کو نہ صرف معاشرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے خاندان کی عزت اور غیرت کا پاسدار بھی بنا دیا گیا ہے۔ اس کے کسی بھی غلط قدم سے اس کے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ یہ غلط قدم اپنی مرضی کی شادی بھی ہو سکتی ہے۔ کئی دفعہ تو چاقو سے اس کی ناک کاٹ کر خاندان کی ناک اونچی کی جاتی ہے اور بہت دفعہ اسے قتل کرکے خاندان کی عزت بحال کی جاتی ہے۔

کچھ سال پہلے لاہور میں ایک عورت اپنی مرضی کی شادی کی تصدیق کرکے عدالت سے باہر نکلی تو اس کے خاندان کے افراد نے پولیس کے سامنے اسے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ مرضی کی شادی تو دور کی بات ہے۔ بارش میں خوشی سے ڈانس کرتی بچی کو بھی اس جرم میں قتل کی سزا ملی۔ پانچ بچیوں کو گانا گانے اورتالیاں بجانے کے جرم میں مار دیا گیا اور افضل کوہستانی جیسے دلیر، صادق اور امین اور مہربان شخص کو ان کے قتل کی گواہی دینے پر شہید کر دیا گیا۔ اسے پاکستانی ریاست نے بھی تحفظ فراہم نہیں کیا جس کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستانی ریاست اس میں برابر کی حصہ دار ہے۔

غیرت کے نام پرعورت کے قتل اور اس پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے پر اعتراض کیے جاتے ہیں اور اس پر فتوے لگائے جاتے ہیں کہ قرآن کی آیات اور احادیث کی تفسیریں اپنی مرضی سے کرکے ان سب باتوں کو اسلام کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسلام کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کی عورت پر ایسی پابندیاں نہیں تھیں جو آج کی عورت پر لگائے جانے پر زور دیا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جنگ جمل میں اونٹنی پر بیٹھ کر جنگ میں حصہ لیا اور بہت سے جید مرد صحابہ کی قیادت کی۔

بعد کے کچھ مسلمان تاریخ دانوں نے یہ کہنا شروع کر دیاکہ حضرت عائشہ نے بعد میں توبہ کر لی تھی اور پھر سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا جو کہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ وہ ہمیشہ مسلمان حکمرانوں کے غلط فیصلوں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی وفات اس زمانے کے مدینہ کے گورنر، مروان کے قاتلانہ حملے کی وجہ سے ہوئی کہ وہ اس پر بہت تنقید کرتی تھیں۔ (تاریخ اسلام۔ اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول، اشاعت نومبر 2003 صفحہ 592 )۔

ساتویں صدی کی عورت معاشرے کی فعال رکن ہوتی تھی۔ کاروبار سے لے کر جنگوں تک میں شرکت کرتی تھی۔ جنگوں میں زخمیوں کو پانی پلانے اور دوائیاں دینے کے علاوہ براہ راست جنگ میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ خولہ بنت الازوار کی جنگوں میں تلوار سے لڑنے کی تعریف رسول کریم ﷺ نے خود کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جنگیں انھوں نے منہ اور آنکھیں ڈھانپ کر نہیں لڑی تھیں۔

ملبورن کی کانفرنس کے منتظمین جب خواتین شرکا کی تصویروں کے چہروں پر سیاہی پھیرتے ہیں تو وہ عورت کی شخصی آزادی اور اس کی مرضی کو عزت نہیں دے رہے ہوتے۔ وہ اس بات سے مسلمان عورت کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ جس قسم کا معاشرہ تشکیل کرنا چاہتے ہیں اس میں عورت کو بے چہرہ رہنا ہوگا۔ جب مسلمان عورت کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اس کی آواز بھی سنی نہ جائے تو دراصل اسے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کے بنائے معاشرہ میں وہ بے آواز ہوگی۔ عورت کوجب صرف مرد کے رشتے سے پہچانا جاتا ہے تو اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس معاشرے میں اس کو بلا شناخت رہنا ہو گا۔ جب ایک نقاب اوڑھنے والی کو آنکھیں مکمل طور پر ڈھانپنے کو کہا جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ تم منظر عام سے غائب ہو کر گھر میں نظر بند ہوجاؤ۔

ایسے حالات میں لڑکی کی پیدائش پر مبارک دینا واقعی بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایسے معاشروں میں اگر کوئی بوڑھی عورت کسی نومولود لڑکی کو مار دیتی ہے تو اس کی آنکھوں کی خوشی کی چمک اور چہرے کی طمانیت اس کی زندگی کے تجربات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں کہ اس معاشرے میں جہاں عورت کا چہرہ، جسم اور آواز کو فتنہ سمجھا جائے جہاں اسے تالیاں بجانے اور گانا گانے پر قتل کی سزا ملے اور پھر اس کے قتل کی گواہی دینے والے کو ریاست بھی تحفظ نہ دے، جہاں اسے اپنے جسم پر بھی اختیار نہ ہو، اس معاشرے میں اس کا زندہ رہنا زیادہ بڑا ظلم ہے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi