جمہوریت دہشت گردی کے خلاف تحفظ دے


\"taqi\"پاکستان میں جمہوریت بحثیت انسداد دہشت گردی کا ایک جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کس قدر دہشت گردی پر اثر انداز ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں ایک حلقہ کہتا ہے کہ جمہوری آزادیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کیونکہ جمہوری طرز حکومتیں عوام کو جوابدہ ہونے کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہوتی ہیں- کچھ اسکالر کا استدال ہے کہ آمریتوں کے پیچھے عوامی طاقت نہیں ہوتی، اسی طرح لیجی ٹی میسی نہ ہونے، عوامی تائید کی عدم موجودگی، اور عوام سے بیگانہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کے مؤثر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عوامی حمایت سے محروم ہوتی ہے-  ماضی کے برعکس  پہلی بار شدت پسندوں کو کو تنہا کرنے اور جنگ کے جواز کے لیے جمہوریت کو بطور انسداد دہشت گردی استمعال کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے کیونکہ طالبان جمہوریت اور جمہوری حقوق کو غیر اسلامی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں- 2008ء کے بعد سے پاکستان میں الیکشن اور جمہوری نظام کا تسلسل اور اسکا دہشت گردی کے خلاف اقدامت کو عوامی تائید سمجھا جاتا ہے، خاص کر ان پارٹیوں کو سیکولر ہونے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے- سیاسی پارٹیوں کو الیکشن میں ملنے والے ووٹ اور نمائندگی کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے- لیکن ان دعوؤں کو پرکھنے کی ضروررت ہے- 2008ء سے لے کر اب تک جب سے جمہوریت کا دعوی کیا جاتا ہے جہموری حکومتیں تشدد اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں پوری طرح نظر نہیں آتیں-یہ دہشت گردوں کو شکست نہ دے سکیں بلکہ دہشت گردی کی بڑی کاروائیوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے-  اس تحقیق سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں  جمہوری حکومتیں کس حد تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب  رہی ہیں؟
اس کے جواب میں دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ یہ کہتی ہیں کہ جب جمہوری حکومتیں بد عنوانی میں ملوث، اختیارات کا بے جا استمعال، سیاسی انتقام، جعلی انتخابات سے قائم شدہ حکومتیں اوران میں موجود جمہوریت کے لباس میں چھپے سیاست دان جن کا رجحان اسٹبلشمنٹ کی طرف ہوتا ہے جس سے جہموری ادارے غیر مستحکم ہوتے ہیں اور حکومتیں دہشت گردی کے خلاف مؤثر پالیسی بنانے میں ناکام رہتی ہیں-

جمہوریت اور دہشت گردی کے حوالے سے دو مکتبہ فکر پاے جاتے ہیں- ایک طبقہ فکر \”سیاسی رسائی\” کا مکتبہ فکر کہلاتا ہے- یہ کہتے ہیں جمہوریت شدت پسندوں کو زیادہ موقع فراہم کرتا ہے اس  کے برعکس دوسرا مکتبہ فکر \”حکمت عملی\”کا  مکتبہ فکر یہ کہتے ہیں کہ زیادہ شہری آزادیاں دراصل دہشت پسند گروپوں کے لیے کام آسان تر بنا دیتا ہے اور الیکشن میں منتخب ہونے سے زیادہ عوامی توجہ حاصل کرنے کی صورت میں جمہوریتوں پر دباؤ پڑتا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے مذکرات کرے تو یہ شدت پسندوں گروپوں کے ایکشن کے لیے رغبت پیدا کرتا ہے- پہلے مکتبہ فکر کا استدال ہے کہ زیادہ جمہوریت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کے اندر اور باہر بہت کم دہشت گردانہ حملے ہونگے- جبکہ دوسرا مکتبہ فکر پیش گوئی کرتا ہے کہ اس کا نتیجہ دہشت گرد گروپوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور اس سے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوگا-

میکس ابراہیمس کہتا ہے کہ جموریتوں کو دہشت گردی کے زیادہ شکار ہونے کے بارے میں روایتی طور پر جو اعدادو شمار، اس مقصد کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے کے جمہوریتوں کے دہشت گردی کو راغب کرنے کے امکانات زیادہ ہیں- حالیہ اسٹڈیز میں بھی خود کش حملوں پر کام کرنے والے بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں-

دوسری صورت میں جب جمہوریت کو انسداد دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو اسکا مطلب امن، سیکورٹی اور جمہوریت میں ضرور کوئی باہمی تعلق پایا جاتا ہے- پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جمہوریت کو کئی حوالوں سے زیر باعث لایا جاتا ہے اول، تو یہ کے جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے عمل سے دہشت گردی پھیلتی ہے  اور دوم، سب سے بڑھ کر یہ کہ افغان جنگ کو جہاں پاکستان میں دیگر برائیاں کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے- اسی طرح ایک فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کو افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں جھونک دیا تھا- مزید جنرل مشرف نے امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کر کے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا- یہاں فوجی آمریتوں کو دہشت گردی کے پھیلاؤ کا واضح کردار نظر آتا ہے-

لیکن جب جمہوریت کو انسداد دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردی کو ایک سیاسی مسلہ کے طور پر تسلیم کیا جائے اور مسلے کا سیاسی حل ہی تلاش کیا جائے- فوج نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بالواسطہ اور بلا واسطہ حکومت کی ہے اور اس نے سویلین حکومتوں کو اختیار دینے سے انکار کر کیا  کیونکہ اس کے اندر یہ یقین مستحکم ہوتا گیا ہے کہ قومی سلامتی میں ان کا کردار ایک محافظ کا ہے، اور ان مراعات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں جو ان کے ریاستی مشینری پر کنٹرول سے آتے ہیں- 2008ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے عوامی نمائندگی کے اداروں کی کمزوری کا جاری رہنا دراصل گورننس کے ڈھانچہ میں اصلاحات کے راستے میں اسٹیبلشمنٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس سے ریاست کا شریوں کو بنیادی خدمات، انصاف اور تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے بلوچستان میں موجودہ صورتحال اسکی واضح مثال ہے-

اسٹیبلشمنٹ  زیادہ اختیار کے قابل سمجھی جاتی ہے- پاکستان میں \”اسٹیبلشمنٹ\” کے طاقتور ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوے طارق کھوسہ، سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی کہتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حماقتوں کو فتح میں بدلنے کا فن آتا ہے یہ وہ گھمبھیر صورتحال ہے جس میں جمہوریت کو محدود کر کے اسکو تراشتے ہوے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ملک ایک خود ساختہ اشرفیہ کے حق میں استمعال کیا جائے-  وہ کہتا ہے کہ پاکستا میں کسی میں ہمت نہیں ہے کہ وہ فوجی اشرفیہ سے کسی قسم کا سخت سوال کرے-

انٹرنیشنل کرائسیس گروپ کہتا ہے کہ فوج کو نیشنل سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی جیسی پالیسیوں میں تقریبا کلی اختیار حاصل ہے اس نے شدت پسندوں کی اپنی طور پر تقسیم کر کے \”اچھے اور برے جہادی گروپ کی حکمت عملی\” اپنی ہوئی ہے-
تجزیہ نگار نجم سیٹھی کہتا ہے کہ\” پاکستان میں سیاسی جماعتیں خود جمہوری نہیں بنتی- جبکہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں جمہوریت کو قانون کے آئینی نظام کو ہر حال میں مقدم رکھنا ضروری ہے جہاں ریاست ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے انسداد دہشت گردی کی کوشش بار آور ثابت نہیں رہتیں- یہ بنیادی دعوی کہ جمہوریت دہشت گردی کا تریاق ہے دراصل ان مفروضات پر مشتمل ہے کے جمہوریت، آمریت اور مطلق العنانیت (آٹو کریسی ) کے مقابلے میں زیادہ شراکت داری، اور شہری آزادیوں، قانونی حکمرانی لاتا ہے- جو دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت کی رغبت کم کر دے گا- جمہوریت سے دہشت گردی کے واقعات یا دہشت گردانہ حملے کم ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ جمہوریت محض الیکشن اور ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ یہ شہری آزادیوں اور سیاسی آزادی اور قانون کی حکمرانی کا نام ہے-

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments