حلب کی مسجد اور پیرس کا کلیسا


آج ایک تصویر نظر کے سامنے سے گزری۔ تصویر میں بیفور (before) اور آفٹر (after) کا منظر دکھایا گیا۔ تصویر دیکھتے ہی کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ یہ ایک تصویر انسانی ظلم و بربریت اور مجرمانہ خاموشی کو بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ میں بات کر رہا ہوں شام کے شہر حلب میں موجود ایک عظیم مسجد کی۔ اس مسجد کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رومیوں کے دور میں ایک نصرانی بزرگ ہیلینا کے باغ کے نام پر مشہور تھی اور اس لحاظ سے عیسائیوں کے لیے متبرک تھی۔

مسلمان بادشاہ الولید نے 715 عیسوی میں اس جگہ پہ ایک مسجد کی تعمیر کا کام شروع کروایا لیکن اس کی تکمیل نہ دیکھ سکا۔ اس مسجد کی تکمیل 717 عیسوی میں الولید کے جان نثار سلیمان ابن عبدالمالک کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اس مسجد کو مسلمانوں کے تاریخی ورثے کا ایک اہم جزو کہنا غلط نہ ہوگا۔ اس عظیم الشان مسجد کے خوبصورت مینار کی تعمیر 1090 عیسوی میں ہوئی۔

یہ عظیم الشان مسجد، مسلم فنِ تعمیر کا ایک دلکش شاہکار شام میں خانہ جنگی کے دوران اپریل 2013 میں مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ اس حادثے پر نہ تو دنیا کے نام نہاد امن کے پجاریوں کے کانوں پر جوں رینگی اور مسلم دنیا بھی بالکل چپ سادھے بیٹھی رہی۔ نہ صرف مسلمانوں کی ایک مسجد شہید ہوئی بلکہ دنیا ایک عظیم تاریخی ورثے سے محروم ہو گئی اور اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ تاریخی ورثے کی حفاظت کا جھنڈا اٹھانے والے بھی بالکل خاموش نظر آئے۔

اس کے برعکس پچھلے دنوں پیرس میں موجود ایک تاریخی چرچ میں آگ لگی تو دنیا میں ایک کہرام کی سی کیفیت مچ گئی۔ یاد رہے اس مسجد کی تاریخ پیرس کے چرچ سے کئی سال پرانی ہے۔ مقصد قارئین کی توجہ اس جانب مبزول کروانا ہے کہ اس تاریخی ورثے کو بھی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی پیرس میں چرچ کی طرح انسانی تاریخ کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالمی دنیا کی تنظیمیں کیا اس لیے خاموش ہیں کہ یہ مسلمانوں کا ورثہ ہے؟
شام کی اس تاریخی عمارت جو اب دھول و مٹی سے اٹ چکی ہے اس سے آتی خاموش آوازوں کو سنئے کیونکہ جو خاموش آوازوں کو سننے لگے وہی کان والا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).