مطلق العنان حکمرانوں کا نمبر زیادہ دکھانے کا خبط


مصر کے صدر الفتاح السیسی نے اپنے طوالت اقتدار کے لیے ملک میں ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس ریفرنڈم میں السیسی نے اٹھاسی فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ یاد رہے کہ آئینی اصلاحات کے نام پر صدر السیسی کے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے منعقد کیے گئے اس ریفرنڈم کا حزب اختلاف کی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا اور اس ریفرنڈم کو متنازع قرار دیا۔ یہ ذہن نشین رہے کہ صدر السیسی کسی جمہوری عمل کی پیداوار نہیں۔

مصر میں صدر المرسی کی حکومت کو بطور افواج کے کمانڈر انچیف کے جب السیسی نے اقتدار سے بے دخل کیا تو کچھ دن عبوری سیٹ اپ پر انحصار کرنے کے بعد وہ ”عزیز ہم وطنوں“ کی گردن پر بطور صدر سوار ہو گئے۔ جب انہوں نے صدارت کے لیے الیکشن لڑا تو وہی ”ہمہ گیر اور بے مثال“ کامیابی حاصل کی جو فوجی آمروں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ جب السیسی صدر بنے تو نوے فیصد سے زائد ووٹوں سے کامیاب ہوئے اور اب جب کہ آئینی اصلاحات کے نام پر ان کے اقتدار کو طویل دینے کا ریفرنڈم منعقد ہوا تو پھر نوے فیصد کے قریب حمایت ان کا نصیب بنی۔

فوجی آمروں کی حمایت میں بیلٹ باکس جس کثیر تعداد میں بھرے ہوئے ملتے ہیں اس میں فقط مصر کا فوجی آمر خوش قسمت نہیں ہے۔ وطن عزیز میں چار فوجی آمر گزرے جس میں سوائے جنرل یحیٰی خان کے تین خوش قسمت تھے کہ قوم نے اپنی حمایت و تائید سے اپنے ”نجات دہندوں“ کو سرفراز کیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے جب اپنی فوجی آمریتوں کو عوامی حمایت سے جلا بخشنی چاہی تو ریفرنڈم کا ڈول ڈالا۔ تینوں فوجی آمروں کے دور میں جب بیلٹ باکس کھولے گئے تو ایسی ”فقید المثال“ کامیابی ان کا مقدر بنی کہ مخالفین تو ایک طرف رہے رائے عامہ بھی انگشت بدنداں رہ گئی کہ ان کی بجائے کون سی خلائی مخلوق نے ان بیلٹ باکسوں کو بھر دیا۔ عوامی جذبات اور احساسات کے شاعر حبیب جالب نے اس لیے کہا تھا کہ

ہرطرف ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا

اب جب چاروں جانب سناٹا چھایا ہو اور عوام گھروں میں اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہوں تو لازم ہے کہ فوجی آمروں کی باندی خلائی مخلوق ہی بیلٹ باکسوں منہ تک بھر دے۔ تاہم خلائی مخلوق سے بیلٹ باکس بھروانے کا کام کس طرح لیا جاتا ہے اس سلسلے میں یقینی طور پر مختلف ملکوں میں آمروں اور مطق العنان حکمرانوں نے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لیا اور آج بھی زور وشور سے اس کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں مرحوم سوویت یونین کے مرد آہن جوزف اسٹالن کا طریقہ واردات ملاحظہ کرتے ہیں کہ انہوں نے نمبر گیم میں گنتی پوری کرنے کے لیے کیا ہتھکنڈے استعمال کیے۔

1937 میں جب سوویت یونین میں مردم شُماری کرائی گئی تو ابتدائی تخمینوں نے ملک کی ابادی کو تقریباً سولہ کروڑ بیس لاکھ دکھایا۔ یہ آبادی اسٹالن کی اندازوں سے کم آرہی تھی جو سوویت یونین کی آبادی اٹھارہ کروڑ کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ مردم شماری میں ملک کے باسیوں کا سولہ کروڑ بیس لاکھ ہونا اس لیے بھی جوزف اسٹالن کو منظور نہ تھا کیونکہ وہ تو 1934 میں اس بات کا اعلان کر چکے تھے کہ سوویت یونین کی آبادی سولہ کروڑ 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

یہ یاد رہے کہ سوویت یونین میں 1937 میں ہونے والی مردم شماری گیارہ سال کی مدت کے بعد ہوئی تھی۔ جوزف اسٹالن اس صورت حال پر کبیدہ خاطر تھے کہ مردم شماری میں آبادی کا گنتی نا صرف ان کی پیشنگوئی سے کم نکلی بلکہ تین چند سال قبل ان کی اعلان کردہ آبادی سے بھی کم تر دکھائی گئی ہے۔ غیر جانبدار ماہرین مردم شماری کے نتیجے میں آبادی کی تعداد پر متفق تھے کہ یہ تعداد صحیح ہے کیونکہ 1930 میں سوویت یونین میں قحط سالی کے ہاتھوں بے شمار انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئی تھیں۔

مردم شماری میں آبادی کو اپنے اندازوں اور اعلان سے کم تر ثابت ہونے پر ان تمام انتظامی عہدیداروں کو گرفتار کر کے سائبیریا بھجوا دیا اور وہاں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسٹالن نے نئے سرے سے مردم شماری کے انعقاد کا حکم صادر کیا جو 1939 میں کرائی گئی۔ اس بار مردم شماری کے منتظمین سیانے نکلے کہ ان کی جانب سے کرائی جانے والی مردم شماری کے نتائج جب منظر عام پر آئے تو انہوں نے آبادی سترہ کروڑ دس لاکھ دکھائی۔ منتظمین نے چند سال قبل کیا گیا اعلان بھی سچ کر دکھایا اور اپنی جان خلاصی بھی کرا لی کہ کون سائبیریا میں قید ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مطلق العنان حکمرانوں کا تو یہی وتیرہ ہوتا ہے کہ انہیں نمبر گیم میں زیادہ سے زیادہ نمبر درکار ہوتے ہیں اور ان کا حصول ان کے ایک حکم کی مار ہوتا ہے کیونکہ سرکشی کی صورت میں مقدر سائبیریا کا برف زار بن سکتا ہے یا پھر لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانے کے در سرکشوں کے لیے وا ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).