ایک اسپتال کی موت


ڈراموں اور فلموں میں اکثر دکھایا جانے والا یہ منظر اور ڈائیلاگ بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا جس میں ڈاکٹر آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے پوچھتا یا پوچھتی ہے کہ ماں کو بچائیں یا بچے کو۔ ہمارے میڈیا کی طبی شعبے میں ناقص معلومات بلکہ غفلت پر تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ خیر تو جناب میڈیکل سائینس میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں اور ماں اور بچے کی جان کو خطرہ ہو تو دونوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن فوقیت ماں کی جان کو ہوتی ہے۔ اتنے عرصے بعد یہ بات تب یاد آئی جب شہر قائد کے ایک اسپتال کو طبی غفلت سے مر جانے والی بچی کے لواحقین اور میڈیا کی تحریک پر بند کردیا گیا اور میڈیا نے ایک بار پھر ناقص معلومات اور اعلی درجے کی غفلت کا مظاہرہ کر کے مریض اور معالج کے درمیان فاصلوں کو بڑھانے کا کارنامہ انجام دیا۔

آج ان چیخ چیخ کر بولنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی بٹھا کر چند سوال پوچھے جائیں تو ایک کا جواب بھی نہیں دے پائیں گے لیکن فی زمانہ یہ بغیر ڈگری بغیر تربیت کے پولیس بھی یہی ہیں جج وکیل بھی ہیں ہیں ڈاکٹر بھی یہی ہیں بس صد افسوس کہ یہ صرف وہ نہیں جو ان کا کام ہے کیونکہ در حقیقت تعلیم اور تربیت تو ان کو اپنے شعبے میں بھی نہیں۔

طبی غفلت سے کسی کی جان جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایسا ہوتا رہے۔ اس شہر کا سب سے بڑا اسپتال بھی اس طرح کے واقعات سے خالی نہیں اس ملک کے تو کیا اس دنیا کے ہر اسپتال میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد ردعمل کیسا ہونا چاہیے۔

امریکہ میں دل کے امراض اور کینسر کے بعد اموات کی تیسری بڑی وجہ طبی غفلت ہے۔ جان ہاکنز اسپتال نے سال 2018 میں تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں ہر سال 250000 لوگ طبی غفلت کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ محقق اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ طبی غفلت سے ہونے والی موت کی وجہ کم تربیت یافتہ اسٹاف، بروقت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی کمی، سسٹم کی خرابیاں، اور مضر اثرات کی روک تھام میں ناکامی ہیں۔

جس میں کمپیوٹرز کا کام نہ کرنا، دوائی کی مقدار میں کمی یا زیادتی، غلط دوائی دینا، آپریشن کی وہ پیچیدگیاں جن کی بروقت تشخیص نہ ہوسکی شامل ہیں۔ محقق اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی موت کی ذمہ داری سسٹم پر ہے اور کسی ایک شخص کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ ایک محقق لکھے ہیں کہ طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں کام کی لگن ہوتی ہے اور وہ خیال رکھنے والے اور محتاط ہوتے ہیں لیکن بہرحال وہ انسان ہوتے ہیں اور انسان غلطیاں کرتے ہیں۔

ایک طبی غفلت سے ہونے والی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس دن اس بچی کو غلط مقدار میں دوائی دی گئی اس دن اسپتال فارمیسی کا عملہ کم تھا، فارمیسی کے کمپیوٹر صحیح کام نہیں کر رہے تھے اور فزیشنز کی طرف سے دیے گئے بہت سے آرڈرز جمع ہو گئے تھے۔ اور بعد میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ فارمیسی اسٹاف جو یہ دوائیں بنا رہے تھے وہ مکمل تربیت یافتہ نہیں تھے۔

لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایسے کسی واقعے کو کس طرح ڈیل کیا گیا۔ اس رپورٹ اور اس طرح کی کئی تحقیقات میں تجاویز دی گئی ہیں جس سے ان غلطیوں سے بچا جا سکے اور ان پر عمل بھی کیا گیا لیکن کہیں اسپتال بند نہیں کیے گئے۔ یہ ترقی یافتہ ممالک کی رپورٹس ہیں جن پر شاید ایک آدھ اسپتال بند ہونے سے فرق بھی نہ پڑے۔ لیکن کیا ایک بچی کی لاش پر اپنی دوکان چمکانے والے میڈیا کے کسی ایک شخص کو بھی پتہ ہے کہ پاکستان میں کتنے مریضوں کے لئے کتنے معالج ہیں، کتنے فاصلے پر بنیادی طبی مرکز ہیں۔ کن حکومتی اسپتالوں میں دل کے دورے کی دوائی یا سانپ کاٹنے کا علاج موجود ہے۔ اور اگر دورافتادہ علاقے میں سانپ کے ڈسنے کوئی بچہ اس لئے مر جاتا ہے کہ دوائی موجود نہیں ہوتی تو کس کو سزا ملنی چاہیے یا آج تک کسی کو سزا ہوئی ہو۔

ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ان واقعات کی تحقیقات کے اصول موجود ہیں۔ بغیر تحقیق نہ ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے نہ کسی کو پولیس پکڑ سکتی ہے۔ نہ اسپتال کو بند کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہر بات پر میڈیا کی اجارہ داری ہے جو وہ چاہیں گے وہی سنائی دے گا اور عوام تو عوام حکومتیں بھی اسی دھارے میں بہتی چلی جائیں گی۔

بحیثیت قوم ہم زوال کا شکار کیوں ہیں۔ اس بات کا احساس شدت سے اس وقت ہوا جب میں نے اس طرح کے واقعات کے بعد دنیا کے کچھ ممالک کے لوگوں کے اور لواحقین کے رد عمل دیکھے۔ ایک بچی کی جان دوائی کی غلط مقدار سے ہوئی تو اسی کے نام سے ٹیکنیشن تربیت کی آرگنائزیشن بنا دی گئی۔ ایک خاتون کی جان ایک ملتے جلتے نام کی دوائی سے گئی تو گھر والوں نے کہا اگر وہ بچ جاتی تو اس نرس کو معاف کر دیتی۔ واقعات کی چھان بین سے پہلے کسی میڈیا نامی عفریت کے ذاتی کٹہرے میں کسی کو کھڑا نہیں ہونا پڑا، کوئی رپورٹس سے پہلے جیل نہیں گیا نہ کسی اسپتال کو تالا لگا۔ نہ استادوں کے بھی استاد محترم ڈاکٹرز کو پولیس نے حراست میں لیا۔

ایک شخص نے فیس بک کے کسی پیج پر اسپتال بند ہونے پر افسوس کا اظہار کیا تو ایک جواب آیا کہ ایک جان کی قیمت تم کیا جانو۔ ایک جان کی قیمت اور اہمیت تو ہم سب کسی نہ کسی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے کسی نہ کسی عزیز کو لحد کے حوالے کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایک اسپتال کی قیمت کون جانتا ہے۔ اور بھی ترقی پذیر ملک کی کروڑ سے تجاوز آبادی رکھنے والے شہر کا اسپتال۔ بات پھر وہیں آتی ہے بچے اور ماں میں سے فوقیت ماں ہے اور اسپتال کی موت ماں کی موت کے برابر ہے۔

آج جس طرح ہم دین سے اور استادوں سے دور کیے گئے ہیں اسی طرح ایک عرصے سے لگتا ہے کہ اب ٹارگٹ ڈاکٹرز ہیں جو اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کبھی اس طرح کی خبروں کو غیر جانبداری اور اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آج کل ڈاکٹرز اور پیرا میڈکز کی بڑی تعداد خوف کا شکار ہے۔ وہ علاج کرنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ لیکن ڈرنا اس وقت سے چاہیے جب یہ سرمایہ بھی بیرون ملک چلا جائے اور ملک میں علاج کرنے والے ہی نہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).