فوج کے اعتراضات ۔۔۔ حل کیا ہے!


\"mujahidپاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ملک کی سکیورٹی صورتحال پر جی ایچ کیو میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک بار پھر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کےلئے قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرنا ضروری ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کےلئے معاشرے کے ہر طبقہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بصورت دیگر کامیاب فوجی آپریشن کے باوجود ملک میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ISPRکی پریس ریلیز کے مطابق جنرل راحیل شریف نے بعض عناصر کے تبصروں اور صورتحال کے بارے میں مختلف نظریات اور قیاس آرائیوں پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کے تبصروں اور تجزیوں سے دہشتگردی کےخلاف قومی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ رویہ مسائل کا حل تجویز نہیں کرتا۔ اس تقریر میں پاک فوج کے سربراہ نے البتہ پاکستان کے عوام ، تمام سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے ملک میں امن و استحکام کےلئے انتھک محنت کی ہے اور بے شمار ایثار اور قربانیاں دی ہیں۔

جنرل راحیل شریف کا یہ تبصرہ 8 اگست کو کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس خودکش حملہ میں 72 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس سانحہ کے بعد عام لوگوں کی طرف سے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال پر پریشانی اور تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسی رائے کی بازگشت متعدد تبصروں ، سیاسی تجزیوں، ٹاک شوز اور پھر قومی اسمبلی میں بھی سنی گئی تھی۔ بعض سیاسی لیڈروں نے اس حملہ کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم سے ذمہ دار افسروں کا احتساب کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس حوالے سے مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کےلئے فرنٹیئر کورپس کو ذمہ داری دی گئی ہے۔ یہ ادارہ اس کے باوجود صوبے میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے برعکس سکیورٹی فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی حقوق کےلئے جہدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ بلوچستان سے سکیورٹی فورسز متعدد قوم پرست کارکنوں کو کسی قانونی کارروائی کے بغیر اٹھا لیتی ہیں اور انہیں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں غائب کئے جانے والے لوگوں کو ہلاک کر کے ان کی تشدد زدہ لاشوں کو سنسان یا ویران علاقوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کوئی ادارہ یا ذمہ دار اتھارٹی ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ بلوچستان کی خصوصی صورتحال اور اس کے بارے میں سکیورٹی فورسز کے رویہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں آباد لوگ بھی اگر بلوچستان کی سیاسی گھٹن، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور سرکاری اداروں کے استبداد کے بارے میں آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی قسم کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ کے آخر میں کراچی کے ایک شہری واحد بلوچ کے ساتھ پیش آ چکا ہے۔ وہ سول اسپتال میں ٹیلی فون آپریٹر ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی حقوق ، محروم بچوں کی تعلیم اور ادبی سرگرمیوں میں بھی ملوث رہتے تھے۔ حیدر آباد سے کراچی آتے ہوئے بعض نامعلوم افراد نے مسافر وین روک کر انہیں شناخت کرنے کے بعد ساتھ چلنے کےلئے کہا۔ اس کے بعد سے واحد بلوچ غائب ہیں۔ ان کے خاندان کو ان کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اس واقعہ کی شکایت کرنے اور واحد بلوچ کا پتہ لگانے کےلئے اعلیٰ حکام کو متعدد خط بھی روانہ کئے ہیں لیکن کوئی ذمہ دار ادارہ یہ خط وصول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پولیس اس شہری کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کر چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ واحد بلوچ کو انٹیلی جنس ایجنسی نے اٹھایا ہے۔ اس لئے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں کی جا سکتی۔ اندیشہ ہے کہ واحد بلوچ کو بلوچستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے غائب کیا گیا ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرنے کی سزا دی جا سکے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اگر واحد بلوچ نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ان پر الزام عائد کر کے انہیں مروجہ طریقہ کے مطابق کیوں گرفتار نہیں کیا گیا تاکہ انہیں کسی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ قانون کے مطابق اپنی صفائی کا حق بھی استعمال کرسکیں۔

اس ایک واقعہ سے ملک میں اور خاص طور سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی پس منظر میں اکثر تنقید کرنے والے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر سکیورٹی فورسز کو بلوچستان میں وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ حتیٰ کہ وہ کسی قانونی اختیار کے بغیر کسی بھی شخص کو غائب کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں تو پھر یہ عتاب صرف سیاسی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے۔ دہشتگردی میں ملوث گروہ کیوں کر ان کارروائیوں کی دسترس سے محفوظ رہتے ہیں اور جونہی موقع ملتا ہے، وہ خوفناک حملوں کے ذریعے انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر سرگرم گروہ صوبے میں آباد ہزارہ کمیونٹی کے خلاف متعدد حملے کر چکے ہیں۔ تازہ ترین حملہ میں وکیلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 8 اگست کے خودکش حملہ میں 50 سے زائد وکیل جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس طرح صوبہ اپنے بہترین قانونی دماغوں اور قانون کے ذریعے لوگوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کرنے والوں سے محروم ہو گیا ہے۔ اس دہشت گردی کی ذمہ داری جماعت الاحرار اور داعش نے بیک وقت قبول کی ہے۔ اس لئے یہ اندازہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشترکہ مقاصد کے لئے پاکستان میں تخریب کاری کے واقعات میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ اس سانحہ میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔ اس بارے میں مارچ میں بلوچستان سے بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اور افغانستان کے راستے بھارت کی طرف سے بلوچستان میں دراندازی اور تخریب کاری کی کوششوں کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ تاہم حکومت کوئی ایسے شواہد سامنے نہیں لا سکی ہے جن کی بنیاد پر بھارت یا افغانستان کو اس سانحہ میں مورد الزام ٹھہرایا جا سکے۔ ایسے سانحات میں ٹھوس ثبوت اور شواہد فراہم کرنا آسان بھی نہیں ہوتا، جن سے یہ ثابت ہوجائے کہ انتہا پسند عناصر مختلف ملکوں اور گروہوں کے تعاون سے دہشتگردی کے کسی بڑے واقعہ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ بھارت 2008 میں ممبئی حملوں اور اس سال جنوری میں پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری پاکستان میں موجود گروہوں پر عائد کرتا رہا ہے۔ پٹھان کوٹ حملہ کے بعد تو پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعاون پر آمادگی بھی ظاہر کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود کوئی ایسے شواہد سامنے نہیں لائے جا سکے کہ حافظ سعید یا مولانا مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کو کسی عدالت سے سزا دلوائی جا سکے۔ ان تجربات سے پاکستان اور بھارت کو یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے ہاں انتشار پیدا کرنے کی بجائے، اپنے اپنے ملک کے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ امن و امان کا مشترکہ مقصد پورا ہو سکے۔

اس سارے پس منظر سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ خاص طور سے کوئٹہ میں دہشتگردی کے بڑے واقعہ کے بعد کیوں بے چینی پائی جاتی ہے اور مختلف طبقے کیوں سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو الزام دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف فوج کے سربراہ ہیں جہاں کمانڈر کا حکم حرف آخر ہوتا ہے۔ ایک جموری نظام میں رائے کی آزادی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس طرح مختلف قسم کے تصورات اور خیالات ضرور سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تجزیوں سے ہم اختلاف بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ قرار دینا کہ اختلاف رائے اور منفی تبصروں اور تجزیوں سے ملک کی سلامتی یا لوگوں کی حفاظت کے منصوبوں کو نقصان پہنچتا ہے، ایک غلط تصور ہے۔ جمہوری ملکوں میں اختلاف رائے کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور دہشت گردی کے خطرہ کے باوجود اظہار رائے پر قدغن عائد کرنے کی بات نہ تو کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں دہشتگردی میں ملوث گروہوں کا ایک مقصد تو بہرحال مشترک ہے کہ شہری آزادیوں کو ختم کر کے لوگوں کو عسکری قوت کے خوف میں مبتلا کیا جا سکے۔ مہذب معاشرے اسی ذہنیت اور مائنڈ سیٹ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کے نزدیک اس ملک میں بھی یہی لڑائی جاری ہے۔ معاشرہ مٹھی بھر عناصر کو اسلحہ اور بموں کے بل بوتے پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کا حق دینے کےلئے تیار نہیں ہے۔ اسی لئے پاک فوج سمیت پاکستان کے سب اداروں کو یہ اصول تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنا ہو گا کہ اختلافی رائے یا تجزیہ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ بہتر راستہ تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔

آرمی چیف کی طرف سے دوسرا بڑا اعتراض قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے یہ بات بار بار اس لئے بھی اٹھائی جاتی ہے کیونکہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے فوج تو اپنا کام پوری توجہ اور تندہی سے کر رہی ہے لیکن قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کی ذمہ داری ملک کی سیاسی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اس حوالے سے ویسی ہی مستعدی سے اقدام نہیں کر سکی جس کا مظاہرہ فوج کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو فطری ہے کہ فوج جس طرح کام کرتی ہے اور جس طریقہ کار سے نتائج حاصل کرتی ہے، جمہوری حکومت اس طریقہ سے کسی منصوبہ پر عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسے قومی اسمبلی کی اکثریت اور رائے عامہ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات یہ کام کافی مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں مختلف سیاسی اور نیم سیاسی گروہ مختلف مقاصد سے اچھے یا برے ہر کام میں روڑے اٹکانے پر مصر ہوں اور برسر اقتدار طبقے پر مسلسل الزام تراشی کی جا رہی ہو۔ جنرل راحیل شریف کو بھی اس حوالے سے جمہوری حکومت کی مجبوری اور نظام کے تقاضوں کا بخوبی احساس ہو گا۔

اس کے باوجود پاک فوج کے سربراہ کی یہ بات درست ہے کہ ملک کی جمہوری قوتوں اور خاص طور سے حکمران جماعت کو سنگین صورتحال میں جس اوالعزمی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہ نظر نہیں آتی۔ فیصلے کرنے اور پھر انہیں نافذ کرنے میں دیر کی جاتی ہے۔ بہت سے معاملات میں سیاسی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ واقعی ناقابل قبول ہے۔ اسے تبدیل کرنا اور ملک میں قانون کی حکمرانی کےلئے اقدام کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ تاہم اس منصوبہ کے بعض نکات ایسے ہیں جن پر فوج کی مدد کے بغیر نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نجی ملیشیا یا مسلح گروہوں کو ختم کرنا، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کی روک تھام ، انسداد دہشتگردی کےلئے خصوصی فورس کی تشکیل یا نیکٹا NCTA کو موثر بنانے کے اقدامات، اسی وقت نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں جب فوجی قیادت اور سیاسی حکومت کے درمیان اختلافات کی بجائے افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے گا۔ اس مقصد کےلئے فوج کی قیادت کو مشترکہ مقاصد کے لئے سیاسی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں بے شک مختلف لوگ ہیں اور ان کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے، لیکن اگر وہ ایک ملک اور اس کے مشترکہ مفاد کو پیش نظر رکھیں گے تو یہ مشکل مرحلہ بھی آسان ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments