بلوچستان- بیٹے بازاروں میں نہیں بکتے


جب تیس کسان ایک سال محنت کرلیں تو گاؤں سے ایک نوجوان شہر پڑھنے جا سکتا ہے

\"Barkat بظاہر یہ مضحکہ خیز بیان لگتا ہے اور اس میں کافی حد تک مبالغے کی آمیزش بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک معقول چینی ضرب المثل ہے اور ایک محتاط تخمینہ ہے، جس کا اطلاق قبل از انقلاب کے چین پر براہ راست ہوتا ہے۔ اس مثال کو اگر موجودہ بلوچستان کے دیہی علاقوں پر منطبق کریں تو آج بھی اس بیان میں صداقت محسوس کی جاسکتی ہے۔ شہر کوئٹہ میں سینہ تان کر چلنے والے کسی بھی پڑھے لکھے نوجوان، ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر، بیوروکریٹ، سیاسی کارکن، سیاسی قائد کے پس منظر کو دیکھ لیں پتہ چلے گا کہ وہ ایک دہائی پہلے تک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں سے شہر آمد اور پھر یہاں پر پڑھنے، رہنے، اور اپنی شناخت بنانے کے پیچھے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں؟ یہ تو بس وہی جانیں جن پر گزری ہو۔ مجھ سمیت کم و بیش سب کی ایک ہی کہانی ہے، ہر ایک کی زندگی کی ناؤ ایک ہی جیسی پر پیچ اور نوکدار چٹانوں کے درمیان سے بچتی ہوئی نکلی ہے۔

سائنس کالج اور ڈگری کالج کے ہاسٹلوں میں برہنہ ناچنے والی فاقہ مستی کیوں کر بھلائی جا سکتی ہے۔ یہاں پر مقیم طلبا کو دیکھنے جب ان کے عزیز و اقارب ان کی خیرگیری کرنے، یا کوئٹہ ہسپتال میں علاج معالجے کی غرض سے آتے تو ان کے لباس، پگڑی، اور چپل سے مالی حالت کا صاف پتہ لگ جاتا۔ گو کہ یہ دوست، دشمن کو دکھانے والا لباس ہوتا تھا اور اس میں بس خاص بات یہی ہوتی تھی کہ پیوند نہ لگے ہوتے تھے۔ مختصر یہ کہ تنگدستی، دربدری، بے بضاعتی، شہری کلچر سے بیگانگیت، پولیس اور جیب کتروں کا خوف اور سب سے بڑھ کر سر چھپانے کے لئے جگہ کا نہ ملنا مشکلات کی وہ عمومی فہرست ہے جو کسی بھی پردیسی کو جھیلنی ہوتی ہیں۔ خدا خدا کر کے تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوجاتا ہے۔ روزگار اور پیشہ ورانہ مہارت کے لئے ایک اور دوڑ شروع ہوجاتی ہے، اور کرتے کرتے آٹھ دس سالوں تک گاؤں کے یہ لونڈے شہری بابو بن جاتے ہیں۔ دیہی لونڈے کا شہری بابو بن جانا یقیناََ قطرے کا گوہر بن جانا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں گاؤں سے رشتہ اگرچہ کمزور ہو چکا ہوتا ہے لیکن خاندان کے ساتھ رشتہ فعال رہتا ہے، اور خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ان پر آن پڑتی ہے۔

میں نے اس رشتے کو گذشتہ دو دنوں میں قریب سے دیکھا۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد پتہ چلا کہ شمالی بلوچستان کے تقریباََ ہر ضلعے میں وکلا، دانشوروں، اور انسانی و شہری حقوق کے لئے سرگرم عمل نوجوانوں کی لاشیں گئیں ہیں۔ سانحے کی شدت اتنی تھی کہ شہر کی دیواریں کاٹنے کو دوڑتی تھیں، ٹی وی چینل بتدریج نمک پاشی کئے جارہے تھے، شہر ویرانے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اسی میں غنیمت جانی کہ فاتحہ خوانی ہی کی جائے جو کہ نوحہ خوانی کا ایک خوبصورت غیر سیاسی مردانہ بہانہ ہے۔ چونکہ شہدا کی تدفین اپنے اپنے گاؤں میں کی گئی، اس لئے ہمیں پشین، قلعہ عبداللہ، مسلم باغ، قلع سیف اللہ، اور لورالائی جانا پڑا۔ ہم نے قریب سے گاؤں کی زندگی کو دیکھا جو وہی قبائے مفلس پہنے اپنی بے سر وسامانی اور تنگدستی کے عیب و پیوند نہ چھپا سکی۔ دیواریں سارے راز افشان کر دیتی ہیں، سب بتا دیتی ہیں کہ آخری دفعہ ان کے نحیف وجود کو ڈھانپنے کے لئے گارے کے پیوند کب لگائے گئے تھے۔ فلک کی مانند گاؤں کی کج رو اور مٹی سے اٹی ہوئی پر پیچ گلیاں یہاں پر ان صحرائی پھولوں کے کھلنے کا پتہ دے رہے تھے۔

\"quetta_hospital_blast\"ہمیں بار ہا خیال ہوا کہ کیا اناج کے پکے خوشوں کی مانند ان خوبصورت اور رومانوی جوانوں نے ریت و مٹی میں اٹی ہوئی ان گلیوں میں بچپن اور لڑکپن گزارا ہو گا؟ پھر پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی کسی نو آبادیاتی یا پس نو آبادیاتی آمرانہ دور کے نواب، خان یا ملک کا بیٹا نہ تھا، اور یہ خود رو صحرائی پھولوں کی طرح اپنے اپنے گاؤں کی خاک سے اٹی ہوئی گلیوں میں سے ہی پھوٹے تھے۔ ہر ایک کردار کے گرد کہیں کہانیاں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں، ہر شہید کے گرد اس کے سگے حیرت زدہ کھڑے تھے، رشتے دار، دوست، پرائمری سکول کے ہم جماعت ساتھی، ہر ایک کے پاس کئی کئی کہانیاں تھیں۔ سب کا بس یہی کہنا ہوتا کہ سینکڑوں ہم عمروں میں سے گاؤں سے روشنی کا بس یہی ایک مینار بلند ہوا تھا۔ باقی سارے غربت اور تنگ دستی کے نہینگ (مگرمچھ) کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔

فاتحہ خوانی نے گاؤں اور فرد کے اس پرانے غیر تحریری معاہدے کی یاد دلائی۔ کہ اگر تیس کسان ایک سال تک محنت کریں تو ایک شخص کو ایک سال کے لئے شہر پڑھنے کے لئے بھیج سکتے ہیں، اور پھر ان تیس لوگوں اور ان کی نسل کی شعوری اور تعلیمی ذمہ داری اسی ایک شخص پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن بلوچستان کے کیس میں ایسا نہیں ہے، کہ اس کا شمار دنیا کے ان منفرد علاقوں میں ہوتا ہے جس کی کوکھ سے سونا نکلتا ہے اور لوگ برہنہ پیر اور خالی شکم رہتے ہیں، جو چند نوجوان استثنائی طور پر غربت اور محرومی کے گرداب سے نکل آئے تھے اور اپنی کھوئی ہوئی قومی شناخت اور حقوق کی تلاش میں سرگرادں تھے، انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اب یہاں کوئی نہیں بچا۔ ۔ فیض نے بھی شائد اسی طرح کے کسی احساس سے مرعوب ہو کر کہا ہو گا:

ہم خستہ تنوں سے محتسبو!

کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر میں ہم نے پھر پایا

سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگر

ساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا

لو جام الٹائے دیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments