سرخ جھنڈے اٹھا کر اپنی صف بندی کر لیں


 ہمیں معلوم تھا کہ ریاست اب مزدور دشمنوں کو اپنا اتحادی بنا چکی ہے۔ نواز شریف کی مخالفت اس وجہ سے کرتے رہے کہ وہ مزدور دشمن طبقے کا گورا چٹا چہرہ ہے جس پر ظلم کا کوئی داغ اور ملال نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی کو اس لئے پسند کرتے تھے کہ وہ محنت کشوں کے حقوق کی بات کرتی تھی۔ ہمارے دانشور ریاست‘ دائیں بازو کے سیٹھ اور مذہبی طبقے کے اتحاد کا ہر فریم زیر بحث لاتے رہے مگر انہیں خدا مخالف اور دین بیزار کہہ کر مسترد کیا جاتا رہا۔

اس بار یوم مئی آیا تو شدت سے یہ احساس بھی جاگا کہ اب ریاست “دین بیزاروں” پر مکمل غلبہ پا چکی ہے جو مزدور مطالبہ کرتا تھا اسے ناشکرا‘ کم ظرف اور اپنے ولی نعمت کا نمک حرام ہونے کی گالی دی جاتی۔ یہ الگ بات کہ ساری کی ساری حکمران کلاس اب ایک دوسرے کی جیب تلاشی کر رہی ہے۔ پاکستان میں اقتدار سیاستدانوں اور فوج کے درمیان والی بال کا کھیل رہا ہے۔ کبھی ایک فریق اچھالتا ہے اور کبھی دوسرا جال کے دوسری طرف سے آنے والے گیند کو دونوں ہاتھوں کی طاقت سے بنائے مکے پر رکھ لیتا ہے۔

احتساب اب تو کھیل لگنے لگا ہے۔ بے بسوں کو شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ ریاست کچھ افراد کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔یہ افراد چاہتے ہیں کہ مزدور اور محنت کش ہر طاقت اور اختیار سے محروم کر دیے جائیں۔ خوشی ہو کہ وہ محروم کر دیے گئے۔ اس بار یکم مئی کے روز ایک جگہ کچھ ٹریڈ یونین صحافی کہہ رہے تھے !یہ شکا گو کے مرنے والوں کو ہم کیوں یاد کریں۔ کیا وہ ہمارے کسی شہید یا غازی کو یاد کرتے ہیں؟

یہ صرف ان گنتی کے صحافیوں کی بات نہیں مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری سے جوڑے رکھنے والی اقدار اور روایات سے الگ ہو رہا ہے۔ شکاگو میں جو لوگ شہید ہوئے وہ پوری دنیا کے مزدوروں کی آواز اور جسم تھے۔ انہیں شہید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے لئے نہیں دوسروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے مارے گئے۔ جو اپنے مفادات کے کھیل میں مارا جاتا ہے وہ مقتول ہو سکتا ہے شہید نہیں۔

لاہور میں کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا اور اس کے ساتھ جڑی پیکو فیکٹری سے یکم مئی کو ہزاروں مزدور سرخ پرچم اٹھائے مارچ کیا کرتے۔اس مارچ سے کسی کا کچھ بگڑتا نہ سنورتا مگر مزدور کو یکجا اور متحد دیکھ کر حکمران اشرافیہ ایسے فیصلوں سے گریز کرتی جن سے مزدور متاثر ہوتا ہو۔ ہم بچپن میں مزدوروں کا یہ مطالبہ سنا کرتے کہ محنت کش کی ماہانہ اجرت ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔

پہلے کی باتیں سنی سنائی ہیں۔ پرویز مشرف کا دور ہم نے شعوری ادراک سے دیکھا ہے۔ اس وقت مزدور کی تنخواہ چھ ہزار اور فی تولہ سونا آٹھ ہزار تھا۔ اب مزدور کی کم از کم تنخواہ سولہ ہزار جبکہ فی تولہ سوناستر ہزار سے زائد ہو چکا ہے۔ اصول ہے کہ جس ملک کے پاس جس مالیت کا سونا ہو وہ اسی مالیت تک کے نوٹ چھاپ سکتا ہے۔ ایسا کیا جائے تو ہر چیز کی قیمت لوگوں کی رسائی میں رہتی ہے۔

پھر اگر نوٹ زیادہ چھاپ دیے جائیں (وجہ کچھ بھی ہو) تو افراد کی جیب میں زیادہ رقم آ جاتی ہے۔ وہ مارکیٹ سے ایسی چیزیں خریدنے لگتے ہیں جو ان کی آمدن والی کلاس نہیں خرید سکتی۔ خریدار زیادہ ہوتے ہیں تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ڈیمانڈ سپلائی کا فارمولا لگ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسی کاریگری کی گئی ہے کہ وہ طبقات جو افسر شاہی اور سیاسی اختیار کا حصہ ہیں ان کی جیبیں ان کی محنت اور جائز کمائی سے کہیں زیادہ نوٹوں سے بھری ہوئی ہیں جبکہ محنت کشوں کو سولہ ہزار کی بجائے اب تک بارہ اور چودہ ہزار ماہانہ اجرت دی جا رہی ہے۔

اگر لاہور جیسے شہر میں اس بار مختلف ریلیوں میں دو ہزار سے زیادہ مزدور اور محنت کش جمع نہیں ہو سکے‘اگر کسی صحافتی تنظیم نے یوم مئی پر کوئی پروگرام نہیں رکھا‘ اگر حکومت نے اس روز مزدوروں کے لئے کوئی قابل ذکر پیکیج دیا ہوتا تو انہیں ریاست کے ماں جیسا ہونے کا حساس ہوتا۔ مگر حکومت ایسا کیوں کرے گی۔ بے نظیر بھٹو نجکاری ایجنڈا لے کر آئی تھیں۔ نواز شریف کے خاندان نے تو اتفاق فاﺅنڈری کے چھ ہزار سے زائد مزدوروں کو یونین سازی کا آزاد حق نہیں دیا تھا۔

وہاں ہمیشہ پاکٹ یونین بنا کرتیں۔ اس لئے لوگ پیکیجز کے یونین سربراہ ڈاکٹر اسحاق‘ پیکو کے امین بھٹی‘ مزدور اتحاد کے سربراہ عبدالرحمن شہید سمیت بہت ساروں کو جانتے ہیں۔ اتفاق فاﺅنڈری سے کوئی مزدور رہنما نہ ابھر سکا۔ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہم آزاد لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ بتائیے کیا آپ خود کو ایک پڑھا لکھا اور ذمہ دارفرد سمجھتے ہوئے محتاط انداز میں علمی سطح پر کوئی بات کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں؟

کیا آپ اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں؟ کیا آپ اپنے آئینی اور قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے پولیس سے کوئی سوال یا وضاحت لے سکتے ہیں؟ اور یہ بھی ضرور سوچئے گا کہ جو نوٹ اتنے زیادہ چھپ رہے ہیں انہیں آپ کی جیب کا راستہ کیوں نہیں مل رہا۔ ایک سوال یہ بھی ضرور کسی سے پوچھیں کہ امیر‘ امیر تر اور غریب ‘ غریب تر کیوں ہو رہا ہے۔ ان سوالوں پر غور کرتے کرتے اگر آپ کو طبقاتی جنگ میں اپنی ہار دکھائی دینے لگے تو پرواہ نہ کریں۔ سرخ جھنڈے اٹھا کر پھر سے اپنی صف بندی کر لیں۔ورنہ زمانہ کوئی اور چال چل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).