سوشل میڈیا اور تنقیدی اندازِ فکر


\"drکہتے ہیں کہ ایک بادشاہ علمِ نجوم سے بہت متاثر تھا۔ جب اس کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس نومولود شہزادے کو شاہی نجومی کے حوالے کردیا کہ وہ اُس کی پرورش کرے اور اپنا سارا علم شہزادے کو منتقل کر دے۔ کئی برسوں کے بعد نجومی نوجوان شہزادے کو لے کر شاہی دربار میں حاضر ہوا کہ اب کوئی ایسا علم نجومی کے پاس نہیں جس میں شہزادے کو مہارت حاصل نہ ہو۔ بادشاہ نے یہ سن کر اپنے ہتھیلی میں ایک انگوٹھی چھپائی اور شہزادے سے پوچھا کہ بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ شہزادے نے علم نجوم و جفر وغیرہ سے حساب لگا کر بتایا کہ بادشاہ کے ہتھیلی میں آٹے کی چکی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ بہت غضب ناک ہوا اور نجومی سے کہنے لگا کہ یہ ہے تمہارا وہ علم و ہنر جو اتنے برس تم میرے شہزادے کو سکھاتے رہے ہو۔ نجومی نے دست بستہ عرض کی کہ حضور میرے علم نے تو شہزادے کو بتایا کہ بادشاہ کی ہتھیلی میں ایک گول شے ہے جس کے اندر ایک سوراخ ہے اور یہ کہ اس شے کا تعلق ہاتھ سے ہے۔ اب آگے کام اس کی عقل کا تھا کہ آٹے کی چکی اول تو ہتھیلی میں سما نہیں سکتی، دوسرے بھرے دربار میں بادشاہ کی دسترس میں کیا شے ایسی ہوسکتی ہے جو وہ اپنی ہتھیلی میں چھپا سکے۔ خامی میرے علم میں نہیں، لیکن شہزادے کی عقل کا میرے پاس کوئی حل نہیں۔

یہ کہاوت کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھ کر یاد آئی۔ اس پوسٹ کے مطابق ایک خاتون خلاباز جب چاند پر پہنچیں تو وہاں اُنہیں آذان کی آواز سنائی دی۔ اس طرح کی پوسٹس اگرچہ سوشل میڈیا پر آتی رہتی ہیں لیکن چونکہ یہ ایک کافی پڑھے لکھے دوست نے تعریف کے ساتھ شیئر کی تھی اور اس پر اتنے ہی پڑھے لکھے کئی دوستوں نے لائیک کا بٹن بھی دبایا تھا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کی کسی خبر یا معلومات کو پرکھنے کی صلاحیت کتنی کم ہے۔ کیا انہوں نے ایک لمحہ توقف کر کے سوچا کہ چاند پر آواز سنی جا سکتی ہے یا ہمیں کسی خاتون خلاباز کے چاند پر جانے کا علم ہے؟ ایک پڑھے لکھے شخص کو اگر کوئی نئی بات معلوم ہو اور پسند آ جائے تواس میں اتنا تجسس تو ہونا چاہئے کہ وہ کم از کم اس کی دو تین ذرائع سے تصدیق کرلے۔ لیکن سوشل میڈیا اس طرح کی نیم سائینسی نما پوسٹس سے بھرا پڑا ہے جنہیں اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات شیئر کرتے رہتے ہیں۔ کہیں مائیکرو ویو اوون میں پلاسٹک کے برتن گرم کرنے سے کینسر ہونے سے خبردار کیا جاتا ہے اور کہیں ایک موبائیل فون کی بیٹری پر چپکے ایک برقی سرکٹ کو جاسوسی کا آلہ قرار دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

بات صرف سائینس سے متعلق معلومات تک محدود ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ آج کل کے دور میں سائینسی ایجادات اتنی ترقی کر گئی ہیں کہ ایک عام پڑھے لکھے شخص کے لئے ان کو سمجھنا یا تصدیق کرنا اگر محال نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس رویے کا مظاہرہ ہمیں ہر طرح کی معلومات کے متعلق ملتا ہے۔ ہم رنگ گورا کرنے والی کریموں سے لے کر نیم حکیموں کے بتائے ہوئے نسخے بغیر تصدیق کے استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے سال سیلاب کے دوران لوگ ایسے دریاؤں پر بند بنانے کا کہتے رہے جن میں سیلابی ریلہ تھا ہی نہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی پوسٹس کی ایک اور قسم وہ ہے جس میں نہائت فضول قسم کے اشعار علامہ اقبال، بلھے شاہ اور حتٰی کہ غالب تک سے منسوب کردیے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ہمارا عام مطالعہ کمزور ہے بلکہ ہماری شاعری اور ادب کی سمجھ بھی خاصی قابلِ رحم ہے۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ اگر علامہ اقبال یا غالب آج کل کے دور میں زندہ ہوتے تو فیس بک وغیرہ پر ہرجانے کا دعویٰ کر کے کافی امیر ہوسکتے تھے۔ ایسی پوسٹس کو پڑھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر جو خواہشات، جذبات یا اوہام موجود ہوتے ہیں اگر اُنہی کی گونج ہمیں کسی بیان یا کسی پوسٹ میں نظر آئے تو ہم فوراً اس پر یقین کرلیتے ہیں اور آگے پہنچانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنے میں ذرہ برابر بھی تردد نہیں کرتے۔ یعنی بقول غالب، دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب کوئی نئی بات پتہ چلتی ہے تو ہمارے اکثر پڑھے لکھے افراد اسے تنقیدی نظر سے کیوں نہیں دیکھ پاتے یا اُن میں ایسا کرنے کی صلاحیت موجود بھی ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تو ہمارا وہ تعلیمی نظام ہے جو معلومات رٹ کر امتحان میں زیادہ نمبر لینے کو تو نوازتا ہے لیکن طالب علموں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتا۔ بہت عرصہ پہلے ٹی وی پر ایک دوائی کا اشتہار آیا کرتا تھا جس کی پنچ لائین یہ تھی کہ \’معمہ تو حل ہوگیا، سر درد کا کیا حل؟\’ ہمارا تعلیمی نظام بھی ایسا ہی ہے جو معمہ تو حل کروا دیتا ہے لیکن اصل مسئلے کی طرف طالب علم کو خود سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ دوسری وجہ شائد ہمارے معاشرے کا عمومی تقلیدی مزاج ہے جس کے مطابق ہم کچھ لوگوں کو کسی وجہ سے کچھ زیادہ ہی قابلِ اعتبار سمجھتے ہیں اور جو کچھ ان کی زبانی سنتے ہیں اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ میں اپنے چند امریکی دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ اگر ان کے نام سے کوئی رائے پاکستان میں چھپ جائے تو اکثر لوگ اس پر فوراً یقین کر لیں گے کہ یہ فلاں امریکی سائینسدان (مثلاً ڈاکٹر جانسن) کا کہنا ہے حالانکہ یہ محض بکواس ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر کوئی بات، چاہے کتنے ہی دلائل کے ساتھ میرے نام سے چھپے تو اسے یقین کرنے میں بہت سارے لوگ کچھ ہچکچاہٹ ضرور محسوس کریں گے۔

بہرحال سوشل میڈیا پر اگر کوئی پوسٹ آپ کی توجہ حاصل کرے تو اسکی تصدیق کے لئے ایک آسان حل موجود ہے۔ آج کل گوگل کا زمانہ ہے۔ گوگل پر اس پوسٹ کو تلاش کریں۔ یقیناً آپ کو کوئی نہ کوئی کمنٹ یا پیج ایسا ضرور مل جائے گا جس میں آپ کی پسندیدہ پوسٹ پر کوئی تبصرہ موجود ہو۔ اس پوسٹ پر یقین کرنے اور آگے شئیر کرنے سے پہلے ایسے چند تبصروں کو ضرور پڑھیں، شائد آپ بہتر فیصلہ کر سکیں۔ ایک اور حل جو ذرا مشکل لیکن زیادہ دیرپا اور مفید ہے وہ یہ کہ اپنا مطالعہ محض اخبارات یا سوشل میڈیا کی پوسٹس تک محدود نہ کریں۔ اگر کوئی موضوع آپ کو پسند ہے تو اس موضوع پر کم از کم دو مختلف نکتہ نظر رکھنے والی معیاری کتابیں ضرور پڑھیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف آپ کے علم میں اضافہ ہوگا اور آپ کی سوچ میں وسعت اور گہرائی آئے گی بلکہ اس موضوع سے متعلق کوئی پوسٹ آپ زیادہ اعتماد کے ساتھ شئیر کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments