محمود اچکزئی نے اصولی بات کی تھی


\"Achakzai\"پاکستان الیکشن کمیشن نے ایک وکیل وحید کمال کی درخواست پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن محمود خان اچکزئی سے یکم ستمبر کو وضاحت طلب کی ہے کہ کیوں نہ ان کے بیان کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر انہیں اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر دیا جائے۔ وحید کمال کی درخواست پر غور کیلئے الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) سردار رضا خان کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں کمیشن کے چاروں ارکان بھی شریک تھے۔ درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ محمود اچکزئی نے 8 اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملہ کے بعد قومی اسمبلی میں جو تقریر کی تھی، اس میں مسلح افواج پر تنقید کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تقریر آئین کی شق 19 کی خلاف ورزی ہے، اس لئے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کر دیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے اس درخواست پر غور کر کے اسے وقت کا ضیاع اور غیر ضروری کاوش قرار دینے کی بجائے اس پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا الیکشن کمیشن نے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقاریر کی بنیاد پر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی رکنیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ قانون کی باریکیوں سے قطع نظر یہ قیاس کر لینا ہی ناقابل قبول ہے کہ اس ملک کا کوئی ادارہ ملک کے سب سے بااختیار منتخب ادارے میں کی جانے والی باتوں کو سنسر کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

درخواست گزار نے آئین کی شق 19 کا حوالہ دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی شق کے تحت ملک میں آزادی اظہار کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ تحریر و تقریر کی آزادی کسی بھی جمہوری نظام کیلئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن یا کوئی ادارہ کسی بھی عذر کی بنا پر اس آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ ملک میں جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور اسے سبوتاژ کرنے کا سبب بنے گا۔ درحقیقت ایسا عمل آئین کے تقاضوں سے متصادم اقدام ہو گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ الیکشن کمیشن نے ابھی محمود اچکزئی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے مہلت دی ہے۔ لیکن ایک نامعلوم درخواست دہندہ کے بے سروپا تقاضے پر سنجیدگی سے اس پر غور کرنا اور اس پر ضابطے کی کارروائی شروع کرنا بھی ایک حیرت انگیز اقدام ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن میں انتظامی سطح پر نہیں کیا گیا بلکہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں چاروں ارکان نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ محمود اچکزئی سے جواب طلب کرنے کے ساتھ کمیشن نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق سے بھی رائے طلب کی ہے۔ اگر کمیشن اسی طرح کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کے دعوے کی بنیاد پر دائر ہونے والی درخواستوں کو نمٹانے میں اپنا وقت اور وسائل صرف کرتا رہے گا تو اس کے پاس شاید ملک میں انتخابات کی نگرانی کرنے اور انہیں منعقد کروانے کا وقت بھی نہیں بچے گا۔

اگر کمیشن مزید سنجیدگی سے اس عمل میں پیشرفت کرتا ہے تو یہ اندازہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ شاید کمیشن میں اسی جمہوری عمل کے بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں جسے مکمل کرنے کیلئے اس کا قیام عمل میں آیا ہے۔ مختلف لوگوں کی طرف سے عدالتوں اور مختلف اداروں کو بے بنیاد درخواستیں روانہ کی جاتی ہیں لیکن اس قسم کی درخواستوں کو کوئی شخص یا ادارہ سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ انہیں عام طور سے انتظامی سطح پر ہی اعتراض لگا کر نمٹا دیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اگر ارکان قومی اسمبلی کی نیک نیتی، ملک و قوم سے وفاداری اور آئین کی پاسداری کے بارے میں فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے محمود خان اچکزئی کے معاملہ میں پیشرفت کرنے کی بجائے ان درجنوں درخواستوں پر کارروائی کا آغاز کرنا چاہئے تھا جو اس کے پاس مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے دوسری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو نااہل قرار دینے سے متعلق دائر کی گئی ہیں۔ ان میں ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام گرامی بھی شامل ہے۔ ملک کی متعدد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صادق و امین نہیں رہے، اس لئے آئین کے تقاضوں کے مطابق انہیں قومی اسمبلی کی نشست اور وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ کیا جائے۔ ملک کی سپریم کورٹ ماضی میں ایک وزیراعظم کو پھانسی اور دوسرے کو عہدے سے برطرف کر چکی ہے۔ اس کے سیاسی نتائج پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن بھی قانون و آئین کی من پسند تشریح کے مطابق ویسی ہی تشریح کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو اس ملک میں جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنے کو ہی ممنوع قرار دینا مناسب ہو گا۔

8 اگست کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے دل ہلا دینے والا تھا کہ اس میں ایک وکیل کی ٹارگٹ کلنگ میں ہلاکت کے بعد ان کی میت وصول کرنے کیلئے جمع ہونے والے وکیلوں ، صحافیوں اور اعزہ کے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملہ میں 72 افراد جاں بحق ہوئے اور ان میں سے 50 سے زائد وکیل تھے۔ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں قانون کی عملداری کیلئے لڑنے والوں پر یہ حملہ دراصل صوبے کی عدلیہ اور انصاف کی خواہش اور جہدوجہد کرنے والوں پر وار تھا۔ بلوچستان خاص طور سے دہشتگردوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس لئے وہاں ہونے والے اس اندوہناک سانحہ پر یہ سوال اٹھنا جائز اور درست تھا کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو صوبہ کے امن و سکون کو غارت کرنے میں مصروف ہیں اور کوئی ادارہ ان کا سراغ لگانے اور انہیں روکنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اسی حوالے سے 9 اگست کو قومی اسمبلی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی اظہار خیال کیا گیا اور غم و غصہ بھی سامنے آیا۔ متعدد مقررین کی باتوں سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی سیاسی لیڈر یا قومی اسمبلی کے رکن کے ماضی کے بیانات اور طرز عمل کے تناظر میں عام لوگ یہ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں کہ وہ کس حد تک مخلص ہے یا اس کی تقریر کا اصل مقصد کیا ہے۔ لیکن کسی رکن اسمبلی کو اس خوف میں مبتلا نہیں کیا جا سکتا کہ اگر وہ ایوان میں کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کوئی متنازعہ یا اختلافی بات کہے گا تو اس کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح محمود خان اچکزئی کی سیاست ، ان کے نظریات اور بیانات کے حوالے سے ان پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے اور جوابدہی بھی ضروری ہے لیکن یہ حق نہ تو الیکشن کمیشن یا کسی عدالت کو حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی سزا ’’رکنیت سے محرومی‘‘ ہو سکتی ہے۔ خاص طور سے اگر ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی کے ایوان میں ایک حلقہ کے عوام کے نمائندے کے طور پر کیا گیا ہو تو ان پر صرف سیاسی گرفت ہی ممکن ہے۔ ایسی تقریروں پر قانونی کارروائی کا تصور بھی ملک میں مثبت جمہوری اقدار کو برباد کرنے کا سبب بنے گا۔ کیونکہ قومی اسمبلی اس ملک کا اعلیٰ ترین قانون ساز ادارہ ہے۔ اس کے ارکان اگر کسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انہیں ملک کے مروجہ قوانین کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہئے لیکن اگر وہ بطور عوامی نمائندہ اہم قومی امور پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کوئی بات کہتے ہیں تو ملک کے کسی ادارے یا عدالت کو ان کی گرفت کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہونا چاہئے۔

محمود خان اچکزئی کی جس تقریر پر ان کے خلاف شکایت درج کروائی گئی ہے اور الیکشن کمیشن نے اس پر کارروائی کا آغاز کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس میں درحقیقت پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے ہی سوال اٹھایا گیا ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ فیصلے کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ طے کیا جائے کہ اس ملک میں فیصلے کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ اگر منتخب حکومت اور وزیراعظم بااختیار ہیں اور صرف قومی اسمبلی کو جوابدہ ہیں تو انہیں کوئٹہ سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سزا دینی چاہئے۔ اچکزئی کے نزدیک یہ سانحہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی تھی۔ اس لئے صرف ہمسایہ ملک پر الزام لگانے سے کام نہیں چل سکتا بلکہ یہ تعین کرنا ہو گا کہ کون اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا تھا کہ اس ملک کے سب لوگ جانتے ہیں کہ سماج دشمن عناصر ایجنسیوں کے پے رول PAY ROLL پر ہیں۔ سرکاری تقریبات میں وہ عناصر ملک کے اہم ترین لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں تھانے میں اور حراست میں ہونا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے یہ بھی بتایا کہ اس ملک میں ہزاروں لوگ ہیں جن کی جیبوں میں ’’فرشتوں کے کارڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی کوئی پڑتال نہیں کر سکتا اور نہ کوئی رکاوٹ انہیں روک سکتی ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم حالت جنگ میں ہیں۔ تو اس میں کامیابی کیلئے مل کر اقدام کرنا ہو گا۔ چور دروازے بند کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ان کا یہ سوال بھی تھا کہ کوئٹہ 12 گلیوں کا چھوٹا سا شہر ہے۔ اس کے چپے چپے پر انٹیلی جنس کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ہماری ایجنسیاں گدلے پانی سے سوئی تلاش کر سکتی ہیں لیکن بلوچستان میں مارے گئے ہزاروں لوگوں پر حملہ کرنے والوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی جاسوسی میں مصروف رہتے ہیں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی مفقود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد فوری طور پر ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا ہے اور ان تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن پاکستان میں متعلقہ ادارے اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے ان اعتراضات پر ان کی حب الوطنی پر شک کرنے یا انہیں مسترد کرنے کی بجائے، ان حقائق کا تجزیہ کرنے اور شکایات کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شکایتیں غلط ہیں تو انہیں شواہد کے ساتھ مسترد کر دیا جائے۔ اگر ان میں کوئی سچائی ہے تو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یوں بھی محمود خان اچکزئی نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ملک اور بیرون ملک تجزیہ نگار اور مبصر نہ کرتے رہے ہوں۔ یہ سوال خود حکومت میں شامل بعض اراکین بھی اٹھاتے رہے ہیں کہ فوج اور سول قیادت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر ملک کی پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت کو بااختیار بنانے کی بات کرتا ہے تو یہ اصولی بات ہے۔ یہ ممکن ہے کہ حکومت خود کو اتنا طاقتور نہ سمجھتی ہو کہ وہ مختلف امور میں فوج کی مداخلت کا سلسلہ بند کرنے سے قاصر ہو۔ یہ بات قومی اسمبلی میں اگلے ہی روز وزیر داخلہ اور وزیراعظم کے بیانات سے بھی واضح ہو گئی تھی۔ ان دونوں نے ملک کی مسلح افواج کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے۔

فوج اور ایجنسیوں کی تعریف تو محمود اچکزئی نے بھی کی تھی لیکن ان کا صرف اتنا مطالبہ تھا کہ اصل اختیار عوام کے منتخب لوگوں کے پاس ہونا چاہئے۔ تب ہی وفاق مضبوط اور جمہوریت پنپ سکے گی۔ حق تو یہ ہے کہ ملک کے زیادہ سیاستدانوں کو یہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہ عوام کے نمائندے ہونے کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments