نئی اور محیرالعقول قیادت


ایک طویل عرصے تک پاکستان کی سیاسی قیادت کو ناقص العقل، کم فہم، نا اہل اور کرپٹ قرار دے کر ان کے لتے لیے جاتے رہے سول سیاستدانوں کو غدار کہا یا کہلوایا گیا حتیٰ کہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح بھی جب آمریت مخالف سیاست میں آئیں توغدار کہلائیں۔ 72 سال کے طویل اور صبر آزما انتظا ر کے بعد پاکستان کو ایسی سیاسی قیادت میسر آئی کہ جس کی ایمانداری، قناعت پسندی، فہم و فراست اور قائدانہ صلاحیتوں کو قطعی بے لغزش تسلیم کیا اور کرایا گیا۔ وہ لوگ جو بات بے بات غداری کا فتویٰ دے مارتے تھے انہی نے اُسے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سے نوازا تھا اس لیے شک اور سوال کی گنجائش ہی نہ رہی۔

مجھے ایک سیاسی قائد سے غیرمتوقع اور بے موقع ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اول اول تو یقین نہ آیا لیکن اس کی ہینڈسم شخصیت، بے نیازانہ اندازِ نشست وبرخاست، تلاطم خیز انداز گفتگو اور تین مختلف زبانوں میں لگاتار دشنام طرازی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے یقین کرنا ہی پڑا۔ سامنے بیٹھے اس سے بھی زیادہ معزز دکھائی دینے والے بعض حضرات بہت توجہ اور انہماک سے اس کی دشنام طرازی کو سنتے ہوئے لطف لے رہے تھے۔ بحرِ علوم کی طرح اس کی لہریں کبھی معیشت کے ساحلوں سے ٹکراتیں تو کبھی دفاعی حکمت عملی کی چٹانوں سے الجھ کر لوٹ جاتیں کبھی بین الاقوامی سیاست اس سونامی تلے ہچکولے لیتی تو کبھی گہرے پانیوں کی پاتال میں چھپے گوہر اس کے ہموار ساحلوں پر تیرنے لگتے اس کی ساری گفتگو میں بس ایک قدر مشترک رہی وہ تھی دشنام طرازی۔ موضوعِ بحث کچھ بھی ہو؟ اس تسلسل اور ہموار انداز کی گالیاں اور ہذیان کہ دیکھنے والے مبہوت اسے دیکھے جاتے۔

صرف وہی نہیں اس بڑے ہال میں موجود صفِ اول اور دوم کے دیگر قائدین میں بڑے بڑے معرکۃ الآراء لوگ موجود تھے۔ دائیں ہاتھ بیٹھے حضرت خود کو بائیں ہاتھ بیٹھے شخص سے برتر سمجھتے تھے جبکہ بائیں ہاتھ بیٹھنے والے خود اپنے تئیں اعلیٰ النسل اور ولی النسب مانتے تھے۔ دائیں جانب والے کا خیال تھا کہ بادشاہ گر وہی ہے تو بائیں جانب والے اس امید پر تھے کہ اگلے بادشاہ بھی وہی ہوں گے اور بادشاہ گر بھی وہی۔

اگلی صف کے شروع میں بیٹھے ایک حضرت کا خیال تھا کہ معیشت، معاشی پالیسیوں، اعداد و شمار کے گورگھ دھندے کو ان سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھتا اور ان میں ایسی صلاحیت ہے کہ جس کے بل پر وہ ہندسوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتے ہیں بعض ایک نے آنکھوں ہی آنکھوں میں حیرانی کا اظہار کیا تو صاحب بپھر گئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے ایسا کر دکھانے پر بضد ہو گئے بصد مشکل انہیں اس سے باز رکھا گیا کہ ایسا نہ ہو یہ سارا تماشا یہیں ہو جائے اور جب ضرورت پیش آئے تو کام نہ آئے۔ صدارتی نشست پر براجمان شخصیت نے حیرانی کا اظہار کرنے والوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں گھُورا جیسے کہہ رہے ہوں کہ جب مجھے یقین ہے تو تمہاری کیسے مجال ہوئی شک کرنے کی۔

ایک صاحب کا اصرار تھا کہ وہ الفاظ کے وار سے بڑے سے بڑے دشمن کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ ضرورت پڑنے پر دشمن کے طیارے کو زمیں بوس کرنے کے لئے میزائل استعمال نہیں کرنے پڑیں گے بلکہ یہ فریضہ بھی وہ اپنے زبان دانی ہتھیار سے انجام دیں گے۔ پیچھے خاموش بیٹھی ایک شخصیت نے تو سر ہلا کر گویا یہ باور کرایا کہ انہوں نے تو یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے کئی بار دیکھا ہے۔ اس بار کسی کو شک کرنے کی جرات تک نہ ہوئی۔

وہیں مجھے بعض گمنام مجاہدین کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ان میں سے ایک ایسے بھی تھے جو افغانستان میں روسی جارحیت سے لے کر کشمیر تک کی تمام فتوحات کے سینہ گزٹ غازی تھے اور امریکہ افغان جنگ کے دوران ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دے چکے تھے کہ انہی کی بدولت امریکہ پاکستان کے قدموں میں جھکا واپسی کے لئے محفوظ راستے کی بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔

اس ہال میں ایک شخصیت ایسی بھی تھی جو بار بار اچانک کرسی بدل لیتی تھی اور پھر نئی نشست پر بیٹھتے ہی آواز، لہجہ اور احکامات دینے کا انداز تک بدل ڈالتی تھی۔ سب حیرانی سے اسے دیکھتے تھے لیکن کوئی پوچھنے کی جرات نہ کرتا تھا؟ بالآخر صاحبِ صدر نے پوچھ لیا تو گویا ہوئے میں بیک وقت کئی کام انجام دینے اور یکساں بہترین نتائج حاصل کرنے میں ماہر ہوں۔ میں محتسب بھی ہوں، احتساب بھی، عدل بھی اور نظام عدل بھی، میں وکیل بھی ہوں اور موکل بھی۔ میں راستے سُجھاتا ہوں، لُبھاتا ہوں اور پھر بھُلاتا اور بھٹکاتا بھی ہوں۔ زمینی خدا کے سے لہجے میں بولتے اس شخص کو شاید دوسروں نے پاگل سمجھا ہو لیکن سمجھنے والے خوب سمجھ گئے تھے۔

ہال میں یہ مناظرہ جاری تھا کہ ایک شخص ہال میں داخل ہوا اور اس نے اعلان کیا ”یہ تبدیلی کا سال ہے“۔ اس کے ساتھ ہی جیسے مجمعے میں پھر سے جان پڑ گئی۔ دشنام طرازی کا طوفان جو تھمنے لگا تھا پھر سے چھت پھاڑنے لگا۔ سامنے بیٹھے معزز شخص انہماک سے گالیاں سنتے رہے۔ میں بڑا حیران ہوا۔ باہرنکلتے ہوئے انہیں اشارہ کیا اور باہر آتے ہی پوچھا ”سر آپ کو گالیاں سن کر غصہ کیوں نہیں آ رہا تھا“ پاگل خانے کے ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”کیونکہ میں جانتا ہوں یہ پاگل ہیں اور اگر آپ کو پاگلوں کی بات پر غصہ آ جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے آپ ان سے بڑے پاگل ہیں“ ہم اگر نارمل ہیں تو پھر ہمیں پاگلوں کی باتوں پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔

ہمیں پاگلوں کی گالیاں بھی اطمینان سے سن لینی چاہئیں۔ میں نے اس دن یہ بات پلے باندھ لی چنانچہ میں جب بھی ایسی مشکل صورت حال کا شکار ہوتا ہوں جب کوئی پاگل ٹکر جاتا ہے تو اس سے معافی مانگتا ہوں ’اپنا جرم‘ گناہ اور غلطی تسلیم کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں ’میں پاگل کے ساتھ ڈائیلاگ یا آرگیومنٹ کی غلطی نہیں کرتا۔
آپ کو بھی میرایہی مشورہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).