کس بزدل کو کپتان بنا دیا ہے؟


\"AHMED16 نومبر 2010 ، بڑی عید سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان کے پہلے ٹیسٹ میچ کا آخری دن تھا۔ ساوتھ افریقہ تب دنیا کی نمبر ون ٹیم تھی اور پاکستان کو جیت کے لیے 451 رنز کا ہدف درکار تھا۔ ساوتھ افریقہ نے پاکستان کرکٹ کے ساتھ جس طرح کا بے رحمانہ سلوک کیے رکھا ہے اس کو ذہن میں رکھتے ہوے یہی خدشہ تھا کہ چائے کے وقفے تک ٹیم ڈھیر ہو جائے گی۔ 109 رنز دو وکٹ سے پاکستان نے پانچویں دن کا آغاز کیا تو 159 رنز پر اظہر علی آوٹ ہو گیا۔ میں نے بے بسی سے ہاتھ مسلے کہ بس اب لائن لگ گئی۔ اور ٹی وی سکرین سے نظریں چرا کر ڈپریشن کے مارے چائے پینے لگا۔

اس کے بعد پورا دن پاکستان کی کوئی وکٹ نہیں گری۔ مصباح اور یونس جمے رہے اور سکور آگے بڑھاتے رہے یہاں تک کہ میچ بچانے سے بڑھ کر میچ جیتنے کی پوزیشن پر پاکستان کو لے آئے۔ 90 گیندوں پر 108 رنز باقی اور سات وکٹس محفوظ۔ گریم سمتھ نے مصباح کو آفر کی کہ میچ ڈرا پر ختم کر دیتے ہیں۔ پورا دن میچ ڈرا ہونے کی دعا کرتا کرتا آخر پر آ کر میں لالچی ہو چکا تھا۔ مسکرا کر علی کی طرف دیکھا کہ گریم سمتھ ڈر گیا ہے اور اب یہ میچ ہمارا ہے۔ مگر میری نظروں کے سامنے ہی مصباح نے گریم سمتھ سے ہاتھ ملایا اور میچ ڈرا کرنے پر رضامند ہوگیا۔

میں نے ایک موٹی سی گالی مصباح کو دی کہ کیا بزدل بندہ پاکستان کا کپتان بنا دیا ہے۔ اور \”چاند رات\” کی رونق دیکھنے باہر نکل گیا۔

19 جنوری 2011 کا قصہ ہے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان کا چوتھے ٹیسٹ کا آخری دن تھا۔ نیوزی لینڈ میں دو میچز کی سیریز کا پہلا میچ ہم جیت چکے تھے۔ 92 اوورز میں پاکستان کو صرف 274 رنز بنانے تھے۔ 42 پر تین آوٹ تھے۔ مصباح اور یونس کریز پر موجود تھے۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ لائن لگے گی اور میچ پاکستان ہار جائے گا۔ مگر دونوں کھڑے رہے۔ جب میچ محفوظ ہونے لگا تو مجھے خیال آیا کہ 274 رنز بانوے اوورز میں بنانے چاہییں۔ مگر مصباح نے 226 گیندیں کھیل کر صرف 70 رنز بنائے اور پاکستان نے میچ ڈرا اور سیریز جیت لی۔ یہ پاکستان کی 4 سال بعد پہلی ٹیسٹ سیریز کی فتح تھی۔ مگر پاکستانی شائقین کی اکثریت کی طرح میں \”بزدل کپتان\” کو گالیاں دیتا رہا کہ دوسرا میچ جیتنے کی بجائے ڈرا کر دیا۔

20 جنوری 2014 کا ذکر ہے۔ یو اے ای میں پاکستان سری لنکا ٹیسٹ سیریز کے تیسرے میچ کا آخری دن تھا۔ سری لنکا کو سیریز میں برتری حاصل تھی۔ پاکستان کو سیریز برابر کرنے کے لیے 58 اوورز میں 302 رنز بنانے تھے جو کسی طور بھی ممکن نہیں تھا۔ مگر مصباح اور اظہر علی نے انتہائی تیز رفتاری سے کھیلتے ہوے ناممکن معرکہ سرانجام دیا۔ حیرانی اس بات پر تھی کہ مصباح جیسا \”بزدل کپتان\” جارحانہ موڈ میں کیسے آ گیا۔

7 جولائی 2015 کا ذکر ہے۔ پاکستان کو نو سال میں سری لنکا میں پہلی ٹیسٹ سیریز جیتنے کے لیے 377 رنز کا ہدف ملا۔ میں تب تک ٹیم مصباح کا مداح بن چکا تھا لیکن مجھے بھی معلوم تھا کہ یہ بہت ذیادہ ہے، نہیں ہو پائے گا۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے صرف تین وکٹس کے نقصان پر ہم نے رنز بنا کر سیریز جیت لی۔

14 اگست 2016 کو ٹیم مصباح نے انگلینڈ کو ہوم گراونڈ پر 2-1 کے خسارے میں جانے کے بعد ہر ایک کی توقعات کے برعکس دس وکٹس سے ہرا کر سیریز برابر کر دی۔ اور آج 22 اگست 2016 کو پاکستان دنیا کی ٹیسٹ نمبر ون ٹیم ہے۔

ٹیم مصباح نے کرکٹ کے ذریعے ہمیں قومی سبق پڑھایا ہے۔ انقلاب نہیں لانا۔ مسیحاوں پہ یقین نہیں کرنا۔ ناممکن قسم کے خواب نہیں دیکھنے۔ اپنی حدود میں رہ کر بے چارے قسم کے مسکین افراد کو بروئے کار لا کر، گالیاں اور کوسنے سن کر بھی، آرام سکون سے ایک ایک لائن عبور کرتے جانا ہے۔ آرام سے۔ مضبوطی سے۔ اعتماد سے۔ آہستہ آہستہ نمبر ایک تک پہنچ جائیں گے۔

ٹیم مصباح (\”بزدل، دفاعی\”، مسیحاوں کے بغیر) جمھوریت ہے۔ ٹیم آفریدی( \”جارحانہ، سٹار اٹریکشن، دلیر\”) \”انقلاب\” ہے۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments