بولتے کیوں نہیں میرے حق میں، آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟


میرے نانا اور دادا کا تعلق پنجاب سے تھا جبکہ نانی علی گڑھ اور دادی جےپور سے تعلق رکھتی تھیں۔ بےشمار پاکستانیوں کی نظر میں میری\"minerwa\" ذات صرف پنجابی ہو گی مگر چونکہ میں پدرشاہی ذہنیت کی بیڑیوں سے کافی عرصہ پہلے ہی چھٹکارا حاصل کر چکی تھی، لہذا میں نے خود کو ہمیشہ مخلوط النسل تصور کیا ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں اولاد مرد کی اکیلے نہیں ہوتی، عورت بھی اولاد کو دنیا میں لانے میں کم از کم برابر کی شریک ضرور ہے۔

کراچی میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے بعد جب سیاسی شعور حاصل کیا تو اپنے دل میں مہاجر قوم کے لیے ایک نرم گوشہ اور اپنایئت پائی۔ اس کی وجہ کچھ دادی سے محبت اور ان کے پنجاب کے تجربات سے ہمدردی اور کچھ یہ احساس تھا کہ پنجاب کا صوبہ وہ ہے جسے غالباً باقی تمام صوبوں میں غاصب تصور کیا جاتا ہے۔ پھر پنجاب کے آبائی گاؤں میں میرا اپنا تجربہ بھی خاصہ سیر حاصل نہ رہا جب کچھ رشتہ داروں نے مجھے یہ احساس دلایا کی میں غیر ہوں کیونکہ ’تم لوگ تو اردو بولتے ہو اور تمہاری دادی تو ہندوستانی تھیں‘۔ اس قسم کا تعصب میں نے اپنی ذاتی زندگی میں کراچی یا ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں میں کبھی نہیں پایا۔ بہر کیف، وہ چند متعصب رشتہ دار تمام پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور میرے بہت سے پنجابی دوست اس قسم کے تعصب سے ہر طرح سے پاک ہیں۔ مگر وہ ساتھی بھی اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ پنجابی سامراج نے دوسرے صوبوں کا حق مارا ہے۔

یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کے سبب میرے دل میں ایم کیو ایم کے لیئے ایک نرم گوشہ ہمیشہ سے ہے کیونکہ مہاجر قوم کی حقیقی نمائندگی اگر کسی نے کی ہے تو وہ صرف ایم کیو ایم ہی ہے۔

22 اگست کے واقعات دیکھ کر میں پہلے حیران تھی۔ پانچ دن سے ایک پرامن بھوک ہڑتال جاری تھی۔ یہ اچانک کیا ہو گیا؟ پھر ایک ساتھی نے جب کہا کہ صبر کا بھی ایک پیمانہ ہوتا ہے تو بات کچھ سمجھ میں آئی۔ پھر نہ صرف بات سمجھ میں آئی بلکہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی خون کے آنسو رویا۔ میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں۔ مگر اس شہر کے جلنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا واقعی الطاف حسین کا ایک بیان آج کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا اکیلا ذمہ دار ہے؟ کیا آج ایم کیو ایم کے پاس اپنی آواز سنانے کا، اپنے حقوق مانگنے کا کوئی اور راستہ ہے؟ میڈیا نے آج کی ’بسم اللہ‘ تقریر تو نشر کر دی، مگر پچھلے سال سے نافذ کردہ میڈیا بین کیا جمہوری حقوق کی توہین نہیں؟ کیا ہم میڈیا والوں کو ایم کیو ایم کو اس کا یہ بنیادی حق دلانے کی ذرا بھی آزادی میسر ہے؟ میڈیا کا مقصد عوام کے حقوق کی علمبرداری کرنا ہے۔ کیا مہاجر قوم عوام کا حصہ نہیں یا ہمیں اب انہیں عوام سمجھنے کی آزادی نہیں؟

کامریڈ خرم علی سے اس موضوع پر بات ہوئی تو استاد نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ وہ مقام ایم کیو ایم کے لئے اب دور نہیں جہاں بلوچ قوم پرست کھڑے ہیں۔ کامریڈ کی اس رائے سے اتفاق کرنا میرے لئے انسانیت کا تقاضہ ہے۔

ایم کیو ایم کو اپنی آواز ہمارے بہرے کانوں تک پہنچانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ مصطفی کمال نے آج بھی بیان دیا کہ پانچ دن سے بھوک ہڑتال جاری ہے، اب تک کوئی مرا کیوں نہیں؟ قبلہ منی پور کی ارم شرمیلا کے متعلق بھی وضاحت کرتے چلیں کیونکہ انہوں نے 14 سال تک بھوک ہڑتال جاری رکھی مگر مریں نہیں۔ کیا مہاجر قوم کے جوانوں کو اپنی جانوں کا ہی نذرانہ ہمیشہ پیش کرنا پڑے گا تاکہ ان کی آواز سنی جائے؟ مہاجر قوم کے بےشمار بھائی، بیٹے اور شوہر لاپتہ ہیں، لاتعداد پولیس اور رینجرز کے انکاوئنٹر میں قتل کئے جا چکے ہیں۔ ماتم کا مقام یہ ہے کہ خواہ ہم ریاست ہوں، میڈیا ہوں یا عوام، ان بےشمار لوگوں پر ہونے والے مظالم کی چیخوں کے باوجود ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اور جوں رینگے بھی کیوں؟ کیا ہم بحیثیت وطن واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہم ان خداؤں کے بارے میں کھل کر بات کر سکتے ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم یا بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں سوچنے تک پر پابندی عائد کی ہوئی ہے؟ درحقیقت تو میڈیا بھی مجبور ہے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں۔ مجھے میڈیا نمائندگان کے تجزیات پر افسوس ہوتا رہا۔ ایم کیو ایم کا طریقہ غلط ہو سکتا ہے مگر کیا یس کے نتیجے میں ان کی شکایات کو بھلا دینا جائز ہے؟ پھر کامریڈ خرم کی بات سمجھ میں آئی کہ میڈیا قصوروار نہیں۔ جتنی آزادی اسٹیبلشمنٹ سے ملے گی، میڈیا اتنی ہی بات کر سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایم کیو ایم کے حقوق مانگتی آواز کو دبانے پر میڈیا مجبور ہے کیونکہ بادشاہ لوگوں کے احکامات کی تعمیل اپنے تحفظ کے لئے لازم ہے۔ تو شاید اب یہ کہنا غلط نہ ہو گا کی آج کے واقعات کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے سر ہے کیونکہ سب کچھ انہی کا کیا دھرا ہے۔ پہلے را سے تعلقات کے الزامات، پھر میڈیا بین کے ذریعے بڑی نفاست سے ایم کیو ایم اور میڈیا کے درمیان تلخیوں کو فروغ دیا گیا۔ ان تلخیوں کو بالآخر اشتعال میں تبدیل کرنے میں آج کامیابی ہوئی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ میڈیا ہاؤس پر حملہ ہوا، گرفتار ہوئے سیاسی کارکنان۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر فائدہ کس کا ہوا؟ آپ نے میڈیا اور ایم کیو ایم کو لڑوا کر کیا خوب انداز میں مقصد حاصل کیا! اب ایک بار پھر صحافیوں کے تحفظ کو خطرات لاحق ہو گئے۔ دوسری جانب اس بات کویقینی بنایا جا چکا ہے کہ اب ایم کیو ایم کے حق میں کوئی نہ بولے کیونکہ نہ صرف ایم کیو ایم غدار اور ملک دشمن ہے بلوچوں کی طرح، بلکہ صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ نہایت حسن کے ساتھ تمام تر الزامات کا ٹوکرا بھی ایم کیو ایم ہی کے سر آتا ہے۔

ملک کی دیگر قوموں، مثلاً بلوچ، پشتون، سندھی وغیرہ کی طرح آج مہاجر بھی ظلم و ستم کا نشانہ ہیں۔ را سے تعلقات کے الزامات اور ان کے قائد کی تقاریر پر میڈیا بین سے جو جال بنا گیا وہ آج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، سیاسی انتقامات کا صریح سلسلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مظالم کے پہاڑ ٹوٹنا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ریاست نے ایم کیو ایم کے لئے اپنی آواز سنانے کا کوئی اور راستہ چھوڑا ہے؟

ریاست طاقت اور جنون کے نشے میں شاید یہ بھول جاتی ہے کہ ظلم جب انتہا کو چھوتا ہے تو عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ کیونکہ بہر حال ’ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments