بندر، ٹوپی، چھڑی اور کھیل بتاشے


میری اماں، اللہ تعالی ان کو زندگی اور تندرستی دے، جب موڈ میں ہوتی تھیں تو ہمیں طرح طرح کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کہانیوں کا مقصد\"muhammad اکثر ہمیں کوئی کام کی بات بتانا ہوتا تھا۔ پر کبھی کبھار کوئی کہانی ایسی بھی ہوتی تھی جس کا تعلق اماں کی بچپن کی یادوں سےہوتا تھا۔ ان میں سے، آج کل کے حالات دیکھ کر، مجھے  ایک کہانی بہت ہی یاد آ رہی ہے۔

ہمارے بڑے ماموں بڑے ہو کر تو خاصے مذہبی ہو گئے تھے لیکن بچپن اور جوانی میں خاصے شوقین مزاج تھے، میلوں ٹھیلوں میں اکثر نانا ابا کی آنکھ بچا کر نکل جایا کرتے تھے چاہے واپسی پر مار ہی کیوں نہ کھانا پڑجائے۔ اور پھر وہاں کے قصے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ان قصوں میں دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی تھی جب میلے سے لائے جانے والے پھلوں اور مٹھائیوں میں سے حصہ بھی ملتا تھا، اور مار میں سے نہیں۔

خیر ایسا ہی کوئی میلہ تھا شاید ترن تارن کا جس میں ایک مزے کا تماشہ ہوتا تھا۔ ایک دکان پر چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں چھڑیاں اور کھیلیں بک رہی تھیں ۔ جب پوچھا کہ ان کا کیا کارن ہے۔ ؟ تو جواب ملا کہ خریدو اور وہ سامنے درخت کے نیچے کھلے میں ڈال دو۔ خیر تو مارے تجسس کے ماموں اور ان کے دوستوں نے جتنی ان کو بتائی گئی تھیں اتنی ٹوپیاں وغیرہ خریدیں اور ان کو بتائی ہوئی جگہ پر ڈال دیا۔

آنا فانا اردگرد کے درختوں سے بندر کودتے پھاندتے پہنچ گئے۔ انہوں نے ٹوپیاں سروں پہ رکھیں چھڑیاں ہاتھوں میں لیں اور کھیلوں کی طرف جھپٹے۔ ایک ہاتھ سے کھیلیں چنتے جاتے دوسرےمیں پکڑی چھڑی  سے اپنے ساتھی بندرں کو مارکرکھیلیں چننے سے روکتے جاتے  تھے۔

وہ ہمارا بچپن کا زمانہ تھا اس لئے اماں کی کہانی کو سن کر ہنس دئے اور پوچھا کیا وہ بندر سدھائے ہوئے تھے؟ اماں نے کچھ حیران ہوکر ہمیں دیکھا اور پھر ایک ہلکی سی چپت لگا کر بولیں تیری جانے بلا۔ ایہ دس تماشہ چنگا سی ( تیری جانے بلا، یہ بتا کہ تماشہ اچھا تھا؟) تماشہ واقعی اتنا اچھا تھا کہ اب تک اس کا حال سننا یاد ہے۔ اور خیر اب تو ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے۔

آپ حیراں ہورہے ہوں گے کہ کہاں ہوتا ہے یہ تماشہ؟ اور اگر ہوتا ہے تواتنی لمبی چوڑی تمہید کی بجائے سیدھا سیدھا تماشے کا حال بیان کرکے یہ بتا کیوں نہیں دیتا کہ فلاں جگہ جاکر دیکھ لو۔ اب اتنی بھی بے صبری کیا؟ اطمینان سے سنتے رہتے تو میں اسی طرف آرہا تھا۔

خیر تو ہوتا ہے یہ تماشہ پاکستان میں بلکہ ہمہ وقت ہو رہا ہے۔ اس تماشے کا حصہ بننے والوں نے رنگ رنگ کی ٹوپیاں، پگڑیاں اور دستاریں کس رکھی ہیں، اور فتووں کی چھڑی ہر ایک کے ہاتھ میں ہے۔ بس کھیلوں کی شکل مختلف درختوں کے پاس مختلف ہے۔ کہیں پہ کھلاڑی فتووں کی تلواریں دوسروں پر اس لئے چمکا رہے ہیں کہ ان کی دستار سب سے نمایاں ہو اور ان کی تقریر کی فیس کی رقم زیادہ ہو جائے۔ اور کہیں یہ تلواریں اور لاٹھیاں اپنے حالیوں اور موالیوں کے ہاتھوں میں دے کر کہتے ہیں کہ خدا کے دشمنوں کو قتل کرو (جیسے خدا تو (نعوذ باللہ) خود سے کسی کو سزا دے نہیں سکتا)۔

کہیں ایک اونچی ٹوپی پہنے ایک صاحب ڈکرا رہے ہیں کہ فلاں کافر فلاں کافر، اور جو نہ مانے وہ بھی کافر۔ اور کہیں ایک صاحب یہ فرمارہے ہیں کہ  اگر سمندر میں دو مچھلیاں لڑ پڑیں تو اس کے پیچھے فلاں کا ہاتھ کہنا جائز ہے۔ ایک صاحب اپنے ماننے والوں کو بتا رہے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے آدمی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ خاتوں ان دنوں میں خوش رہے جب وہ تبلیغی دورے پر گیا ہوعین سعادت ہے۔ ایک صاحب اپنے سامعین کو یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کا بائیکاٹ کرکے ان کا روٹی پانی بھی بند کر دیا ہے۔ غرضیکہ ہر طرف ہاہاکارمچی ہے کہ لینا جانے نہ پائے یہ کافر اور روٹی نہ کھاجائے یہ کافر۔

کھیل بتاشے جب سعودی مالی مدد کی صورت میں ہوں تو مدرسوں کے مہتمم حضرات اونچی ٹوپیاں پہن کر میدان عمل میں آجاتے ہیں، اور ببانگ دہل اسلامی شریعت کے نفاذ کی خاطر فساد کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مالی امداد کا بڑاحصہ انہی کو ملے اس کے لئے اگر کچھ بچوں کو خودکش بمبار بنانا پڑے یا حکومت کے کاموں میں مداخلت کرنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

اور جب کھیل بتاشوں سے ایٹمی شعاعیں نکل رہی ہو تو صرف پاکستان سے ہی نہیں دنیا کے اور اسلامی ملکوں سے بھی بندر کود کود کر میدان عمل میں آجاتے ہیں ایک ہاتھ میں جہاد کا علم لئے یا اسلام کا سونٹا لئے۔ نعرہ تو ان کا بھی یہی ہوتا ہے کہ پاکستان سے کفر کو ختم کرنا ہے اور اسلامی شریعت کا اس ملک میں بول بالا کرنا ہے۔ پر اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک دو ایٹم بم ہاتھ لگ جائیں تو دنیا کوبتا دیں کہ وحشت اور بربریت میں مسلمان ناموں والے لوگ بھی کسی سے کم نہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسلام کا بول بالا کرنے والے ان مجاہدین کے ہاتھوں ہم نے تو زیادہ تر مسلمان ہی مرتے دیکھے ہیں

اب آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ مجھے یہ سب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ بس کچھ خبریں آگے پیچھے دیکھ لیں۔ پہلے تو پتا چلا کہ لشکر جھنگوی کے ملک اسحق صاحب پولیس مقابلے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پھر یہ سننے میں آیا کہ اس کے بد لے میں لشکر والوں نے خانزادہ شجاع کو شہید کردیا۔ اور اب کہانی یہ ہے کہ یقینا گزشتہ برس خانزادہ کی وفات اور اس کے بعد سے ان گنت حملوں مین اللہ کے معصوم بندوں کی شہادت کے پیچھے را کا ہاتھ ہے۔

را کا ذکر آیا تو اماں کی سنائی ہوئی بندروں والی کہانی پھر سے یاد آگئی کہ ہندوستان میں بندروں کی بہتات بھی ہے۔ اور ازمنہٗ قدیم سے ہندو بھائی اپنے بزرگ بندروں سے بہت کچھ سیکھتے آئے ہیں۔ تو ہو نہ ہو کسی نے میلے والے تماشے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں بندر کھیل چلا دیا، اسلام کی خدمت کے نام پر۔ اور یہ تو پاکستان کے سبھی دوست، دشمن جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کو اسلام کا نام لے کر یا اسلامی لبادہ اوڑھ کر بآسانی میلے والا بندر بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments