گم شدہ شہری اور ریاست کی ذمہ داریاں


آج سے قریباً 14 سال قبل ایک خاتون جس کا نام ”آمنہ مسعود جنجوعہ“ تھا، اپنے خاوند ”مسعود جنجوعہ“ کی جبری گمشدگی کے خلاف کھڑی ہوئی۔ اس کا الزام تھا کہ کچھ خفیہ اداروں نے مسعود جنجوعہ کو بغیر کسی جرم کے زبردستی اغوا کیا ہے۔ اس خاتون کے آواز بلند کرتے ہی دوسرے بہت سے لوگ بھی احتجاج کے لیے آئے جن کا کہنا تھا کہ ان کے لواحقین کو بھی جبری طور پر مختلف مقامات سے اٹھایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ اور پھر لوگوں کے گمشدہ ہونے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ لواحقین احتجاج کرتے رہے لیکن اس کا زیادہ فائدہ نہ ہوا اور ان کی دستگیری کو کوئی نہ آیا۔

اس سے پہلے صرف جوان مردوں کو ہی جبراً اٹھا کر لے جایا جاتا تھا لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مردوں کے ساتھ ساتھ بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور طالب علموں کو بھی گمشدہ کیا جا رہا ہے۔

پہلے تو یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ تھا لیکن آہستہ آہستہ خیبر پختون خواہ اور اب سندھ میں بھی یہ ہو رہا ہے۔ وہاں کے لوگ آئے روز احتجاج کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

ان کا صرف یہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اگر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو سخت سزا دی جائے لیکن یوں غائب نہ کیا جائے۔ اگر ہم اپنے آئین پر بھی نگاہ ڈالیں تو اس کے آرٹیکل 9 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی مرضی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر زندگی گزار سکتا ہے اور آرٹیکل 10 کے مطابق کسی بھی شہری کو زبردستی کوئی بھی ادارہ نہیں لے کر جا سکتا۔ اگر لے جائے تو اسے 24 گھنٹوں کے دوران علاقے کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر چاہے جو اس نے جرم کیا ہے اس کے مطابق سزا دی جائے۔

افسوس کہ انصاف کی بجائے اس مسئلے پر جو بات کرے اسے ”غدار“ کا لقب ضرور ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک جو شخص ریاست کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا کہے وہ غدار ہے!

ہر سوچنے والا غلط ہے!

ہر سوال اور حق بات کرنے والا غدار!

اس نظام کو صرف وہ رعایا چاہیے جو کہ ان کی ہر پالیسی پر تالیاں بجائے۔

حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن یہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے تو یہ لوگ ان مسائل کے حل کے لئے مسائل حل کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں یا پھر یہ کہ لیں کہ تالے ”لگا دیے جاتے ہیں“۔ یہ لوگ ان جھوٹے وعدوں کو اقتدار کی سیڑھی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہمیں مل کر ان مسائل کے حل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ اور تعمیری نتیجہ مد نظر رکھ کر بات کرنی چاہیے۔ ہم نے خون ریزی کی طرف نہیں بڑھنا کیونکہ پہلے ہی اتنا خون بہہ چکا ہے کہ مائیں دروازے کی دستک سے ڈرتی ہیں کہ کہیں پھر کسی بیٹے کی لاش نہ آئی ہو۔ ماضی میں ہم نے بہت سی جانیں گنوائی ہیں لیکن ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ رہے۔ اس سے پہلے کہ پانی مزید سر سے گزر جائے حالات اور وقت کے مطابق ریاست کو ایک ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ریاست قوم سے تشکیل پاتی ہے کھنڈروں اور صحراؤں سے نہیں۔

انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کریں۔ ظلم اور جبر سے بچا جائے کیونکہ جبر سے مسائل کے حل کی بجائے صرف بغاوت جنم لے گی۔ ہم انسانی فطرت کو حقوق اور انصاف سے ہی بدل سکتے ہیں ظلم اور جبر سے بالکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).