فواد چوہدری کا تھپڑ عمران خان کی شدت پسندی سے برآمد ہوا ہے


وفاقی وزیر ایک سماجی تقریب میں ایک قومی ٹیلی ویژن کے صدر اور اینکر پرسن کے منہ پر طمانچہ مارتا ہے اور اسے ’زرد صحافت‘ کے منہ پر تھپڑ قرار دیتا ہے۔ صحافی اور میڈیا سے متعلق دیگر لوگ اسے ’صحافت کے منہ پر تھپڑ ‘ قرار دیتے ہوئے، اس واقعہ پر احتجاج کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں کہ اس بات کا فیصلہ کیا جاسکے کہ سماجی رویوں میں در آنے والی جارحیت، انتہا پسندی اور شدت پسندی کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔

فواد چوہدری نے جس طرح شادی کی ایک تقریب میں سمیع ابراہیم کے منہ پر طمانچہ مارا ہے، وہ بجائے خود ایک شرمناک فعل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک اسی واقعہ سے جڑے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ فواد چوہدری کو اپنے اس احمقانہ اور غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر کوئی شرمندگی نہیں ہے بلکہ وہ اس تقریب کے بعد مختلف صحافیوں کے ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے یہ تھپڑ زرد صحافت کے منہ پر مارا ہے۔

اس واقعہ کا دوسرا پہلو اس وقوعہ کے رونما ہونے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ سمیع ابراہیم نے وفاقی وزیر کی زیادتی کے بعد پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی جو درخواست دی ہے اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ’ گزشتہ رات وہ ایک شادی کی تقریب کے دوران فیصل آباد سے تحریک انصاف کے ایم این اے فرخ حبیب، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، دو صحافیوں رؤف کلاسرا اور ارشد شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بلا اشتعال مجھ پر حملہ کیا۔ مجھے تھپڑ مارا، غلیظ گالیاں دیں اور پھر نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا‘۔ کسی بحث مباحثہ کے نتیجہ میں ہاتھا پائی پر اتر آنا بھی کوئی مہذب اور قابل قبول رویہ نہیں ہو سکتا لیکن فواد چوہدری نے ایک سماجی تقریب میں خود سے اختلاف کرنے والے صحافی کو ٹارگٹ کرکے تھپڑ مارا اور دشنام طرازی کی۔ کسی اشتعال کے بغیر ایک مخالف کو دیکھ کر تشدد کا مظاہرہ کرنا انتہائی سنگین رویہ ہے۔

اس قسم کی حرکت کوئی عام شہری بھی کرے تو اسے قبول کرنا مشکل ہوگا لیکن جب ایک وفاقی وزیر ایک ایسے اینکر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا ہے جس کے ساتھ اس کے اختلافات موجود ہیں اور دونوں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف افسوسناک اور بے بنیاد الزام تراشی کرتے رہے ہوں، تو اس سانحہ کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک میں جمہوری نظام کی حفاظت کرنے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن اگر حکمران جماعت کا ایک اعلیٰ عہدیدار اور وفاقی کابینہ کا ایک رکن تشدد کو ہی انتقام لینے یا غصہ کا اظہار کرنے کا مناسب طریقہ سمجھتا ہے تو صحافت ہی نہیں جمہوریت کے بارے میں اس وزیر اور حکومت کے رویہ کو زیر بحث لانا ضروری ہوگا۔

فواد چوہدری نے اس حرکت پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ تھپڑ زرد صحافت کے منہ پر مارا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اب باقی صحافیوں اور اینکرز کو ’ امیر اینکرز‘ کا ساتھ دینے کی بجائے ان لوگوں کے خلاف مہم چلانی چاہئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ میڈیا اداروں میں اعلیٰ عہدے اور اینکرز کی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں، وہ خود تو گراں قدر معاوضہ وصول کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے عام کارکنوں اور عامل صحافیوں کو نہ تنخواہ ملتی ہے اور نہ ان کی محنت کا مناسب معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

فواد چوہدری کی باتوں میں کچھ صداقت ضرور ہے لیکن خود اپنے ساتھ اختلاف کرنے والے ایک صحافی کو زد و کوب کرکے وہ اس دلیل کی آڑ میں اپنا جرم نہیں چھپا سکتے۔ یہ اہم اور ضروری بحث ہے کہ میڈیا ہاؤسز کیوں کر مقبول اینکرز کو منہ مانگا مشاہرہ دیتے ہیں اور عام کارکنوں اور صحافیوں کو کیوں کئی کئی ماہ تک تنخواہ نہیں دی جاتی۔ یا انہیں بہت ہی کم معاضہ پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن فواد چوہدری کے منہ سے یہ دلیل یوں بھی زیب نہیں دیتی کہ وہ خود چھے ماہ تک وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز رہنے کے باوجود اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

اس وقت بھی ملک پر تحریک انصاف کی حکومت ہے اور فواد چوہدری کابینہ کا اہم حصہ ہیں۔ کیا اس حکومت نے میڈیا ورکرز کے ساتھ ہونے والی معاشی زیادتیوں کے بارے میں کوئی اقدام کرنے یا میڈیا کی مختلف پوزیشنز پر کام کرنے والے لوگوں کے معاوضہ میں عدم توازن پر بات کرنے، مالکان کی توجہ مبذول کروانے یا بحث شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ فواد چوہدری کے منہ سے زرد صحافت کی بات یوں بھی مناسب نہیں لگتی کہ وہ خود گزشتہ پندرہ برس کے دوران ’ زرد سیاست‘ کا جیتا جاگتا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے رابطہ کار سے پیپلز پارٹی اور پھر تحریک انصاف تک پہنچنے والے سیاست دان کو مفاد پرست اور ہوس اقتدار میں مبتلا شخص تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اسے اصول پسند سیاست دان کہنا ممکن نہیں۔

فواد چوہدری اس وقت تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ جماعت ملک میں شہری آزادیوں کو محدود اور میڈیا کو پابند کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ آزاد عدلیہ سے اس جماعت کی اصولی وابستگی کا اندازہ حال ہی میں قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز سے کیا جا سکتا ہے۔ جو سیاسی لیڈر ایک ایسی حکومت سے وابستہ ہو جس پر چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہوں اور جو صرف اس خبر یا واقعہ کو درست جانتی ہو جس میں اس کے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جائے، اس کے نمائندے کو صحافت کے حسن و خوبی پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اچھی سیاست اور دیانت دار صحافت کی بحث سے قطع نظر فواد چوہدری کا طرز عمل سماجی تقسیم اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے تناظر میں دیکھنا زیادہ ضروری ہوگا۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے جس کے قلع قمع کے لئے تحمل، قوت برداشت اور اختلاف رائے برداشت کرنے کو بنیادی سماجی رویہ اور سیاسی اصول کے طور پر اختیار کرنا اہم ہے۔ قومی ایکشن پلان کا بنیادی مقصد بھی مذہب یا کسی دوسری بنیاد پر تخصیص کرتے ہوئے نفرت اور تشدد کے پرچار کو روکنا ہے۔ لیکن اسی حکومت کا ایک نمائندہ اپنے ہی لفظوں میں ’زرد صحافت‘ کا خاتمہ کرنے کے لئے ’امیر اینکر‘ کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے اور ایک دوسرا وزیر ایک قومی ٹی وی پروگرام میں پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی پر لٹکا کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی تجویز دیتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان خود سیاسی شدت پسندی اور انتقامی رویوں کا عملی نمونہ ہیں۔ چند روز پہلے بجٹ پیش ہونے کے بعد قوم کے نام خطاب میں انہوں نے مالی مشکلات کا شکار اہل پاکستان کو تسلی دینے، بجٹ کے بارے میں کوئی عملی وضاحت کرنے اور معاشی حکمت عملی کا روڈ میپ پیش کرنے کی بجائے جھوٹ اور گمان کی بنیاد پر سیاسی مخالفین پر الزام تراشی کی۔ اس دوران جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا اور قومی قرضوں کو سابق حکمرانوں کی ذاتی دولت میں اضافہ کی بنیاد قرار دیتے ہوئے عمران خان نے جس طرح مخالف سیاسی لیڈروں  کو انتقام اور سنگین کارروائی کی دھمکیاں دی ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے تو زور زبردستی اور فاشزم سے ملتا جلتا سیاسی رویہ تحریک انصاف کا ٹریڈ مارک بنتا جارہا ہے۔

عمران خان سے فواد چوہدری کی غیر ذمہ دارانہ حرکت یا فیصل واڈا کے ہولناک بیان پر بازپرس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے لیڈر اور وزیر اعظم کے طور پر مخالفین کو تہس نہس کر دینے کی پالیسی کو اپنے منشور کا بنیادی اصول بنایا ہے۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے معاشرہ کو تقسیم اور انتشار کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے جو نیا پاکستان تعمیر ہو گا وہ مدینہ ریاست کے اس تصور سے کوسوں دور ہے جس کا خواب دکھاتے ہوئے عمران خان ملک پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali