کیا تعلیم انسانیت سکھاتی ہے؟


\"Nazishشا م کے پانچ بج رہے تھے۔ ہر طر ف ٹریفک کا شور سنا ئی دے رہا تھا۔ گا ڑیاں، ٹیکسیاں اور رکشے، سب ہی منزلوں پر جلدی پہنچنے کی کو شش میں تھے اور سبز لا ئٹ جلنے کے منتظر تھے کہ جلد از جلد گرمی اور دھواں کی اذیت سے نجا ت ملے۔ لیکن سبز لا ئٹ جلتے ہی سب گا ڑیاں ایسے دوڑیں جیسے کوئی ٹرین نکلنے وا لی ہو۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی تگ و دو۔ اسی اثنا میں ایک سمت سے انتہائی شور اور گا لم گلو چ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ذرا نظر دو ڑائی تو ایک نو جوان نہا یت ہی حقا رت اور ظالمانہ اند از سے ایک کمزور رکشے والے کو ما ر رہا تھا جو کہ شاید عمر میں اس نوجوان کے باپ سے بھی بڑا ہو۔

آس پاس کے لوگ اس لڑکے کو روکنے کے لئے آگے بڑھے مگر وہ اس قدر طیش میں تھا کہ کسی کی نہ سنی۔ پھرمعاملہ بڑھنے پر پو لیس اہلکار آئے اور یہ مار پیٹ بند ہوئی۔ ضعیف رکشے والے کی حالت غیر ہو تی جا رہی تھی۔ ایک خا تون نے اپنی گاڑی سے اتر کر رکشے والے کو پانی پینے کو دیا جب اسکی حالت سنبھلی تو لوگوں نے رکشے والے ہی سے وجہ در یا فت کرنی چا ہی کیو نکہ وہ نو جوان تو جیسے جلتے ہوئے توے پر بیٹھا تھا کہ مصا لحتی افراد بھی اس کی زد و کوب کا شکا ر بنے۔ لوگوں نے اپنے ذہن میں کہا نیاں بنا نی شروع کر دیں کہ شا ید رکشے والے نے کوئی نا منا سب بات کہہ دی ہو اور جوان خون با ت کو بر داشت نہ کر سکا ہو۔ مگر جب اصل وجہ رکشے میں موجود فیملی نے بتائی تو غصے کے ساتھ ساتھ افسوس بھی بہت ہوا کہ آخر ہم کس طرف جا رہے ہیں اور بر داشت ، ضبط ، اعلی ظرفی جیسے الفاظ کیا اب صرف کتا بوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔

وجہ بہت معمولی تھی کہ کالے شیشوں والی بڑی گاڑی میں سوار نوجوان نے اپنی گاڑی پہلے لے جانے کے لئے رکشے والے کو ہارن پر ہارن دیے مگر رکشہ ڈرائیور ایمبو لینس کو راستہ دیے بغیر اپنی جگہ سے ہلنے کو تیا ر نہ تھا۔ بس اسی انسانی ہمدردی کی پاداش میں اس نہتے آدمی پر رحم اور احترام جیسے الفاظ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

 اس دن مجھے احساس ہوا کہ ایک فرد کس قدر معا شرے کے تہذیب یافتہ اور با شعور ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ سا تھ شعوراور برداشت ہونا بے حد ضروری ہے۔ مہنگے اداروں میں پڑھ لکھ کر، بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کر کے اور اس ملک کے 3 فیصد آبادی پر محیط اس طبقہ اشرا فیہ کے نوجوان اگر انسانیت کی حس سے عاری ہو ں گے توپہلے سے ہی مہنگائی اوربدامنی سے بد حال عوام کو کیا درس دیا جا ئے؟

یہاں میری سب نوجوانوں سے در خواست ہے کہ بات کتنی ہی نا گوار کیوں نہ ہوہم بر داشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور سب کا احترام کریں کیونکہ یہ ہم پر لازم بھی ہے اور ہمارے تربیت کی عکاس بھی۔ ہما را ایک عمل ہما ری پوری بائیو گرا فی کھول کر سا منے رکھ دیتا ہے پھر بات تربیت سے ہوتی ہوئی والدین تک جا پہنچتی ہے۔ یقینا ہم تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم اور والدین کا نام روشن کرنے کا عزم لیے پھرتے ہیں تو کیا ہم وا قعی اس مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں ؟ سو چئے !!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments