بلند قامت بیٹی


\"Syedواقعہ یہ ہے کہ جمعے کو رات کے وقت اپنی اہلیہ کو زچگی کے لئے ہسپتال لے کر گیا۔ ہمارے ساتھ خاندان کے بزرگ اور دیگر لوگ بھی تھے۔ اور موصوفہ کو جب ولادت کے لئے لیبر روم میں لے جایا گیا۔ میں باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا، اتنے میں ایک صاحب اس کمرے سے باہر نکلے، جن کی عمر چالیس برس سے کم ہی لگ رہی تھی، اور شکل و صورت اور لباس سے کافی سمجھدار اور پڑھے لکھے بھی لگ رہے تھے۔ جب وہ کمرے میں تھے تو کافی غیر مہذب اور بلند آواز میں گفتگو اور ڈانٹنے کی آواز آرہی تھی، جس پر میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا، کیونکہ میں تو اپنی شہزادی کی آمد کی خوشی میں مگن تھا، مگر جب وہ کمرے سے دروازہ بہت زور سے پٹختے ہوئے نکلے، تو میری سوچ کے رشتے ٹوٹ گئے اور میں ان کی طرف متوجہ ہوا، چہرے پر غصے کے آثار نمودار تھے، ہونٹ ہل رہے تھے اور لگ رہا تھا کہ بڑبڑاتے ہوئے کسی کو کوس رہے ہیں، اسی حالت میں وہ میرے سامنے سے گذرتے ہوئے انتظامیہ کے پاس پہنچے۔ مجھے یہ حالت دیکھ کر تشویش تو ہوئی مگر، پھر میں اپنی فکر کی ڈوریوں کو جوڑنے میں لگ گیا۔ اتنے میں ہماری ہمشیرہ کمرے سے باہر نکلیں، اور بتایا کہ ابھی یہ صاحب ولادت کے کمرے میں، اپنی درد سے نڈھال بیوی کو غصے میں اس بات پر کوستے ہوئے، کراہتا چھوڑ آئے ہیں کہ اس ماں نے ان کو ایک لڑکی کا باپ بنایا ہے۔۔۔ یہ سن کر میری فکر کے اوراق یک دم منتشر ہوگئی، میری خوشی میں دکھ شامل ہوگیا، ایک بہت ہی بھاری اور کمرشکن دکھ، جس کے بوجھ نے مجھے بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ میں بیٹھ گیا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس شخص سے پوچھتا کہ تجھے کس نے پیدا کیا ہے؟ کس نے تجھے مرد بنایا ہے؟ تجھے مردانگی کا احساس کس نے دیا؟ مگر وہ بہت دور جاچکا تھا اور مجھ میں اس سے ہمکلام ہونے کی ہمت نہیں تھی، بلکہ یوں کہوں کہ معاشرے سے جھگڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ خیر یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، یہاں تک کہ میرے آنسو نکلنے والے تھے، مگر میری مردانگی نے ان کو نکلنے نہ دیا، مگر مجھے ایک ایسی بات یاد آئی جس سے میرے دکھ میں ندامت اور شرمندگی کا احساس بھی شامل ہوگیا، وہ یہ کہ شادی کے وقت میری ایک شرط یہ بھی تھی کہ میری بیوی مجھ سے کم قد ہونی چاہیے، نہ جانے کیوں اس وقت میں سمجھتا تھا کہ مرد کا قد اپنی بیوی سے لمبا ہونا ضروری ہے، شاید میں بھی معاشرے کی جھوٹی مردانگی کا شکار ہوگیا تھا۔ اب میں اس شخص سے کیا کہتا۔۔۔۔
\"Naqvi\" خیر، انہی خیالات میں، کروٹیں بدلتے ہوئے رات گذر گئی اور میرا اس کمرے میں جانے کا وقت آیا جہاں معجزۂ ولادت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ میں تمام قد اپنی مردانگی بھرا سینہ تان کر، اپنی بیوی کی ہمت باندھنے کے لیے اندر گیا، میری اہلیہ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہیے گا، شاید مجھے ڈر لگے، آپ کے ہونے سے مجھے ہمت ملے گی، میری اپنی بھی خواہش تھی کہ اس مشکل وقت میں اپنی اہلیہ کا ساتھ دوں، پر میں کیسے ساتھ دیتا؟! اندر تو منظر ہی عجیب و غریب تھا، نہ جانے کیوں میں اہنے آپ کو بہت ہی چھوٹا محسوس کررہا تھا، مجھ سے ڈیڑھ انچ کم قد بیوی، مجھے بہت ہی بلند قامت نظر آرہی تھی۔ میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ تھامنے کو ہاتھ اٹھاتا مگر میرا ہاتھ اس کی بلند قامتی کو چھو بھی نہ پاتا تھا، میں سہما ہوا کھڑا تھا، کہنے کو تو میں اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنےآیا تھا، تاکہ اسے ہمت دوں، پر حقیقت میں تو میں اس سے ہمت لے رہا تھا، مجھے عورت کی ہمت اور بلند قامتی کا صحیح احساس اس دن اس کمرے میں ہوا، میں نے زنانگی کو مردانگی کے سامنے رجز پڑھتے ہوئے دیکھا، کہ کیا تجھ میں ہمت ہے میرا مقابلہ کرنے کا، میری نظروں کے سامنے میری بیوی، ماں، دادی، بہن، بلکہ دنیا کی ہر عورت مجسم ہونے لگی، مجھے چکر آرہے تھے، میری فکر کے رشتے الجھ گئے تھے، یہ مجھے کیا ہوگیا، میں تو ہمت باندھنے آیا تھا۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں نرس نے ہماری بیٹی کو، میری گود میں لٹا دیا، میں نے اس کا ننھا سا ہاتھ تھاما اور ہمت پکڑی، میری خوشی کی کوئی حد نہیں تھی، نہ جانے کیوں مجھے اپنی چھوٹی سی بیٹی نہایت بلند قامت نظر آرہی تھی، مجھ سے اتنی ساری ہمت کا وزن نہیں اٹھایا جا رہا تھا، میں نے اسے اس کی بلند ہمت و بلند قامت ماں کے برابر میں لٹا دیا، جو ابھی ایک معجزہ دکھا کر درد سے نڈھال لیٹی ہوئی تھی، میری آنکھوں میں آنسو آنے ہی والے تھے کہ میری مردانگی۔۔۔
اس دن سے مجھے اپنی بیٹی اپنے سے بلند قامت نظر آتی ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments